Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیت المقدس بحران،2018ء مسلمانوں کی فتح کا سال

غلام مرتضیٰ  باجوہ
امریکہ نے مقبوضہ بیت المقدس کو  اسرائیل کا  دارالحکومت قرار دے کرایک اور عالمی جنگ کا آغاز کر دیا ہے جس کے بارے میں مختلف پیشگوئیاں کی جا رہی ہیں۔   سال رواں کا  ماہ  فروری 4 اتوار ، 4 سو موار ،  4 منگل ،4بدھ ،  4 جمعرات ، 4 جمعہ  اور 4 ہفتہ پر مشتمل ہو گا۔  ہفتہ کے7 دنو ں میں4 کی تعداد پر مشتمل ہے۔ 7 دنو ں کے4 کے اعداد پر مشتمل   فروری کے متعلق بہت سی  پیشگوئیاں مشہو ر ہیں۔ بابا و انگا کی پیشگوئی ہے کہ 2018ء میں چین دنیا کاسپر پاور بن جائے گا ، اور بھی مختلف 2018ء میں پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں۔
اس حقیقت سے انکا ر نہیں کہ جس جنگ کا آغاز امریکی صدر  ٹرمپ نے کیا ہے،تاریخ گواہ  ہے کہ جس   عیسوی سال 2018ء کا آغاز ہوا ہے یہ خود    امریکی  صدر کیلئے پیغام لیکر آرہاہے کہ 823سال پہلے جنگ حطین 4 جولائی 1187ء کو    عیسائی  سلطنت یروشلم اور  سلطان صلاح الدین ایوبی کی  افواج کی درمیان لڑی گئی جس میں فتح کے بعد مسلمانوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے بیت المقدس کو  عیسائی قبضے سے چھڑا لیاتھا۔ مصر میں فاطمی حکومت کے خاتمے کے بعد صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل، حلب   وغیرہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لئے تھے۔   اس دوران صلیبی رہنما  رینالڈ کے ساتھ 4 سالہ معاہدہ صلح طے پایاجس کی  رو سے  دونوں ایک   دوسرے کے ساتھ   مدد کرنے کے پابند تھے  لیکن  یہ معاہدہ محض کاغذی اور   رسمی ثابت ہوا۔
جب بیت المقدس پر قبضے کی  خبر یورپ پہنچی  تو سارے یورپ میں کہرام مچ گیا۔ ہر طرف لڑائی کی تیاریاں ہونے لگیں۔  جرمنی، اٹلی،  فرانس اور انگلستان سے  فوجوں پر فوجیں فلسطین روانہ ہونے لگیں۔  انگلستان کا بادشاہ     رچرڈ جو   اپنی بہادری کی وجہ سے شیر دل مشہور تھا اور  فرانس کا  بادشاہ فلپ آگسٹس اپنی فوجیں لے کر فلسطین پہنچے۔  یورپ کی  اس متحدہ  فوج کی تعداد 6 لاکھ تھی،  جرمنی کا بادشاہ  فریڈرک باربر وسا بھی  اس مہم میں ان کے ساتھ تھا۔  عیسائی دنیا نے اس قدر  لاتعداد   فوج اسے پہلے فراہم نہ کی تھی۔  یہ عظیم الشان  لشکر یورپ سے  روانہ   ہوا اور عکہ کی  بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا۔   اگرچہ  سلطان صلاح الدین   تن تنہا تھے مگر اپنی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لئے تھے لیکن صلیبیوں کو  یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔    ایک معرکے میں 10 ہزار   عیسائی قتل ہوئے مگر صلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھا لیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطان کی  طرف دست تعاون نہ  بڑھایا،  اس لئے صلیبی ناکہ بندی کی   وجہ سے  اہل شہر  اور  سلطان کا تعلق  ٹوٹ گیا اور    باوجود   پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک  نہ  پہنچا سکی۔
صلاح الدین نے بیت المقدس میں داخل ہوکر    وہ مظالم نہیں کئے جو   اس شہر پر قبضے کے  وقت عیسائی افواج نے کئے تھے۔  صلاح الدین ایک مثالی فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس میں داخل ہوئے۔  اس نے زر  فدیہ لے کر ہر عیسائیوں کو  امان دے دی  اور  جو  غریب فدیہ نہیں ادا کر سکے  ان کے فدیئے کی رقم صلاح الدین اور  اس کے بھائی ملک عادل نے خود  ادا کی۔ حطین کی فتح کے بعد  صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ،ایک ہفتہ تک  خونریز جنگ کے بعد  عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیئے  اور  رحم کی درخواست کی۔   بیت المقدس پورے 88 سال بعد دوبارہ  مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور  تمام فلسطین سے مسیحی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔     بیت المقدس کی  فتح صلاح الدین ایوبی کا  عظیم الشان کارنامہ تھا۔       اس نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر  نور الدین زنگی کا تیار کردہ   منبر اپنے ہاتھ سے مسجد میں رکھا۔    اس طرح نورالدین زنگی کی  خواہش اس کے ہاتھوں پوری ہوئی۔ بیت المقدس پر فتح کے ساتھ یروشلم کی  وہ مسیحی حکومت بھی ختم ہوگئی جو  فلسطین میں 1099ء سے قائم تھی۔   اس کے بعد جلد ہی  سارا فلسطین مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔بیت المقدس پر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ  رہا تاآنکہ 1948ء  میں  امریکہ ،  برطانیہ  اور فرانس کی  سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور   بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی  عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کر لیا۔
ماہرین ، مبصرین اور  مختلف پیش گوئیوں سے معلوم ہوتاہے کہ  امریکی حکام خود  پریشان ہیں جس کی بناء  پر  مقبوضہ بیت المقدس کو   اسرائیل کا دارالحکومت  قرار  دیکر عالمی جنگ شروع کرکے چین کو  دنیا کی سپر پاور بنانے میں  رکاوٹ بننا چاہتاہے کیونکہ امریکی حکام اپنے مذہبی رہنماؤں کی پیشگوئیوں پر یقین رکھتے ہیں۔  تاریخی حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ  مقبوضہ بیت المقدس پرعالمی جنگ میں فتح مسلمانوں کی ہی ہو گی۔  یہی حقیقت ہمیں مختلف احادیث سے بھی ملتی ہے کہ سرزمین فلسطین یا شام میں مسلمانوں اور یہود کے درمیان فیصلہ کن معرکہ ہوگا۔   یہاں پیش آنے والا آخری معرکہ معجزاتی ظواہر پر مشتمل ہوگا جس میں حجر وشجر بھی مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔   ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام مہدی اور سیدنا مسیح ابن مریم بھی اس معرکہ میں ہوں گے۔   قیامت سے پہلے کے بیشتر واقعات بھی اسی سرزمین سے منسوب ہیں۔   اس حقیقت کا ادرک خود یہودیوں کو بھی ہے جو مقبوضہ فلسطین کے بیشتر علاقوں میں غرقد نامی درخت بڑی تعداد میں اگارہے ہیں کیونکہ رسول اکرم کی پیشگوئی کے مطابق جس معرکہ میں حجر وشجر مسلمانوں کا ساتھ دیں گے اس میں صرف یہی غرقد نامی درخت ایسا ہوگا جس کے پیچھے یہودی چھپ سکتے ہیں۔  باقی حجر وشجر سب ایسے ہوں گے جنہیں اللہ تعالی قوت گویائی عطا فرمائے گا اور وہ بولیں گے کہ اے مسلمان میرے پیچھے یہودی چھپا ہے۔   یہودیوں کی کتابوں میں اس معرکے کی تفصیل مذکور ہے اور وہ اس کی تیاری کر رہے ہیں۔  
 

شیئر: