محمد العصیمی ۔ الیوم
بعض تجربہ کار اور سوجھ بوجھ رکھنے والے دوستوں نے ہمیں یہ معلومات فراہم کی ہیں کہ سیکڑوںچھوٹی چھوٹی دکانیں اور بقالے ویلیو ایڈیڈ ٹیکس سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔انہیں ویلیو ایڈیڈ ٹیکس وصول کرنے کا کوئی حق نہیں مگر یہ اپنے طور پر ٹیکس مقرر کرکے از خود وصول کرکے اپنا بینک بیلنس بڑھا رہے ہیں۔ چھوٹی دکانیں ہو ں یا بقالے ویلیو ایڈیڈ ٹیکس نظام میں اندراج کے مجاز ہی نہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اوپر سے لیکر نیچے تک ٹیکس خلاف ورزیوں کا کھیل زور شور سے جاری و ساری ہے۔
میں اور مجھ جیسے نہ جانے کتنے سادہ لوح شہری اول تو دکانوں اور بقالوں سے سامان خریدتے وقت یہ بات نوٹ ہی نہیں کرتے کہ ان سے کیا کچھ کس کس عنوان سے لے لیا گیا ہے۔ انہیں دھوکہ دیدیا جاتا ہے اور پتہ ہی نہیں ہوتا کہ انہیں ٹوپی پہنا دی گئی ہے۔ ہم میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اس قسم کی صورتحال سے دوچار ہونے پر دکانداروں کے ساتھ چیخ و پکار کرنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات نوک جھونک اور چوں چرا کا معاملہ ناقابل بیان سنگین نتائج تک پہنچ جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟۔ میرا خیال ہے کہ اس کی تمام تر ذمہ داری وزارت تجارت ، اس کے قواعد و ضوابط اور اس کے ان انسپکٹرز پر آتی ہے جنہیں صارفین کے تحفظ کا فرض تفویض کیا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں کے دوران میں نے جو کچھ سنا، سمجھا وہ یہ ہے کہ مقامی شہری درہم و دینار اور اخراجات کے حوالے سے منفی ذہن اور منفی سوچ کا مظاہرہ نہیں کررہے ۔ سچ یہ ہے کہ چھوٹے تاجروں اور کارکنان کی غلطیوں اور خلاف ورزیوں سے نمٹنے کی واحد ضمانت صرف یہی نہیں کہ عوام منفی نہ ہوں۔اس کی اصل ضمانت حکومت ہی ہے۔ حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گدلے پانی میں شکار کرنے والوں کے جبر اور استحصال سے صارفین کو بچانے کا اہتمام کرے۔
سعودی عرب جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں ، وسیع و عریض رقبے میں پھیلا ہوا ملک ہے ۔ یہاں انواع و اقسام کے بازار اور طرح طرح کے تجارتی مراکز جگہ جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ درپیش صورتحال سے نمٹنے کیلئے وزارت تجارت کو انسپکٹرز کی تعداد بڑھانا ہوگی۔وزارت تجارت کو ایک کام اور کرنا ہوگا اور وہ یہ کہ صارفین کو آگہی مہم چلا کر بتایا سمجھایا اور سجھایا جائے کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ، ان کے حقوق کیاہیں اور ان کے فرائض کیا بنتے ہیں؟
ماضی¿ قریب تک تاجر حضرات ہم سب صارفین کو فٹبال بنائے ہوئے تھے۔ ہم سے جس طرح چاہتے کھیلتے، ہم سے جتنا چاہتے فائدہ اٹھاتے، خوشحالی اور فار غ البالی والے حالات اور سرکاری خزانے سے تقسیم کی جانیوالی بے تحاشہ دولت کے ماحول میں صارفین تاجر حضرات کے رویوں پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ تاجر لوگ صارفین کو ہرطرح سے لوٹتے اور جس طرح چاہتے منافع کماتے۔
حالیہ برسوں کے دوران صورتحال تبدیل ہوئی ہے ۔ایک طرف تو صارفین میں آگہی پیدا ہوئی ، دوسری جانب صارفین کے حوالے سے سرکاری اصلاحات بھی روبہ عمل لائی گئیں۔ کُل ملاکر استحصال اور بیوقوف بنانے والے ماحول کو لگام لگی ہے۔گاہکوں کی آمدنی سے کھیلنے ، ان کے اعصاب پر وار کرنے اور ناجائز فائدہ اٹھانے سے روکنے کیلئے متعدد اقدامات کئے گئے۔ ان سب کا فائدہ بالآخر صارفین کو ہوا ہے۔
اب صارفین کے سامنے 2راستے ہیں ۔ پہلا امکان یہ ہے کہ بعض تاجر سامان خریدتے یا مطلوبہ خدمت حاصل کرتے وقت ویلیو ایڈیڈ ٹیکس کے بہانے صارفین کے گلے کاٹنے کا چکر چلائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وزرات تجارت اور اس کے انسپکٹرز کو زیادہ محنت کرنا ہوگی۔ صارفین کو ان کے استحصال سے روکنے کیلئے سخت اقدامات کرنے ہونگے۔ اس ضمن میں وزارت کے کارندوں کواس بات کا اہتمام بھی کرنا ہوگا کہ وہ عوامی رد عمل ٹھنڈا پڑجانے کے ایک دو ہفتے بعد لمبی تان کر نہ سوجائیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ صارفین حضرات اشیاءو خدمات کے نرخوں میں اضافے اور ٹیکس لگائے جانے سے پیداہونیوالے حالات سے سبق لے کر اپنے طور طریقے تبدیل کریں۔ ایسا ہوگا تو آنے والے دن ہمارے لئے زیادہ بہتر ہونگے۔ تبدیلیوں کو سمجھ کر اخراجات کو کنٹرول کرنا اور اخراجات کے نظام کو بہتر بنانا ہمارے وسیع تر مفاد میں ہوگا۔
قارئین کو یہ کڑوی سچائی قبول کرنی ہوگی کہ تاجر حضرات چالاک ہی ہوتے ہیں ، انہیں جب بھی منافع میں اضافے کا کوئی موقع ملتا ہے تو اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ تاہم اصل کردار وزارت تجارت ہی کا ہے۔ آخر میں ان تاجروںکو سلام پیش کرنا بھی اخلاقی فرض ہے جو نیک نیتی کے ساتھ ہیش ٹیگ”ٹیکس ہمارے ذمے“مہم کا از خود حصہ بن گئے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭