Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں طلاق کی شرح حقیقی سماجی اصلاحات کی متقاضی

عماد المدیفر ۔ الجزیرہ
وزارت انصاف نے جب سے سعودی عرب میں مقامی شہریوں میں شادی اور طلاق کے اعدادوشمار اپنی ویب سائٹ پر دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے اورپابندی سے اسے اپ ڈیٹ بھی کررہی ہے تب سے ذرائع ابلاغ بھی اس حوالے سے اپنا کردارادا کرنے لگے ہیں۔ وہ اپنے قارئین و ناظرین کو پابندی سے حقائق سے آگاہ کررہے ہیں۔ شادی ا ور طلاق کے اعدادوشمار دیکھ کر سعودی شہریوں کی نجی مجلسوں میں بے چینی اور تشویش بڑھنے لگی ہے۔ طلاق کی شرح میں ہیبت ناک اضافے نے ہر کس و ناکس کو پریشان کردیا ہے۔عام احساس یہ ہے کہ حالیہ ایام میں طلاق کارجحان خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے۔
نظریہ سازوں اور سماجی امور کے ماہرین نے اس کے اسباب دریافت کرنے شروع کردیئے۔ وقتاً فوقتاً عجیب و غریب محرکات بیان کئے جارہے ہیں۔ بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ ایسا دینی شعور کی کمی کے باعث ہورہا ہے۔ دیگردین سے وابستگی پر زور دے رہے ہیں۔ کئی لوگوں کا کہناہے کہ شرعی علوم کی کمی اس کا باعث ہے۔ زمینی حقائق کہہ رہے ہیں کہ سعودی عرب میں تعلیمی اور دینی آگہی کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ یہاں اس حوالے سے شعور و آگہی کا سلسلہ نہ تعداد کے حوالے سے کم ہے اور نہ معیار کے حوالے سے کسی طرح کی کوئی کمی پائی جاتی ہے۔
جو لوگ دینی آگہی کے فقدان کو طلاق کی شرح میں اضافے کا باعث گردان رہے ہیں، انکی تردید بت پرست ممالک کے حالات و واقعات سے از خود ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر ویتنام یا نیپال جیسے ممالک میں طلاق کی شرح ہمارے یہاں سے کم ہے۔ اسی طرح سیکولر عیسائی ریاستوں مثال کے طور پر اٹلی، فرانس اور برطانیہ یا یہودی ریاست اسرائیل میں بھی طلاق کے اعدادوشمار ہمارے یہاں سے کم ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ طلاق کی شرح میں اضافہ بیحد تشویشناک ہے۔ بعض لوگ اس پر حیرت زدہ ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ طلاق واقعی ایک لہر کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ مثال کے طور پر وزارت انصاف نے گزشتہ ماہ طلاق کے حوالے سے جو اعدادوشمار جاری کئے ہیں ان کے بموجب 11 ہزار638شادیاں ہوئیں اور 5 ہزار287طلاقیں ہوئیں۔ گویا جتنی شادیاں ہوئیں لگ بھگ 50فیصد طلاقیں بھی ہوگئیں۔
ایسا لگتاہے کہ طلاق کے حوالے سے جو اعدادوشمار دیئے جارہے ہیں وہ ایک یا2 یا 3 یا 4 برس کی پیداوار نہیں بلکہ یہ پوری نسل بلکہ 2مکمل نسلوں کے حقائق ہیں۔یقینی بات ہے کہ ہمارے آباﺅ اجداد کی نسل میں طلاق جیسا رواج نہیں تھا۔ انکے زمانے میں شاذو نادر ہی طلاقیں ہوا کرتی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہوگیا کہ ہمارے یہاں طلاق کے واقعات ہولناک حد تک بڑھ گئے ہیں؟
بعض لوگ قیاس آرائی کرکے کہہ سکتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی اسکی ذمہ دار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حقیقی سبب نہیں۔ اسکا دائرہ کسی ایک ملک تک محدود نہیں پوری دنیا میں ٹیکنالوجی آئی ہے ۔ صرف سعودی عرب میں نہیں۔
زمینی سچائی یہ ہے کہ آباﺅ اجداد کے زمانے میں زندگی سادہ اور فطری تھی۔ مرد وزن کے درمیان ملنے ملانے کے حوالے سے وہ پیچیدگیاں نہیں تھیں جو آج پائی جاتی ہیں۔ سب لوگ ایک ساتھ بیٹھتے تھے۔ بازاروں کھیتوں ، کھلیانوں اور مدرسوں میں سب ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے تھے۔ قریئے کے نوجوان بستی کی لڑکیوں کو جانتے پہچانتے تھے۔ ملتے، بات چیت کرتے، کھیلتے ایک دوسرے سے زندگی کے امور میں تعاون کیا کرتے تھے۔ کوئی نوجوان شریک حیات کا انتخاب کرنا چاہتا تو اسے پہلے سے پتہ ہوتا تھا کہ اسکی نظرِ انتخاب جس لڑکی پر پڑی ہے وہ کیسی ہے؟ یہ سعودی عرب ہی نہیں تمام سادہ اور دیندار معاشروں کا یہی حال تھا۔
اصولی سچائی یہ ہے جس کا ہمیں سامنا کرنا چاہئے، کہ ہمارے دور میں شادی کا سلسلہ دنیا میں کسی بھی جگہ کے معاشرے سے مختلف ہوگیاہے۔ عام طور پر دلہن کا انتخاب ماں، بہن یا خالہ یا پھوپھی کررہی ہےںیا شادیاں چچا زاد، خالہ زاد یا ماموں زاد بہنوں کے ساتھ ہورہی ہیں۔ رشتوں کا فیصلہ تجھ مجھ کی کہانیوں اور کہی ہوئی باتوں پر کیا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا فطری صورتحال ہے؟50فیصد شادیاں اسی لئے فیل ہورہی ہیں۔ دیگر 50فیصدکی کامیابی کا راز صرف اتنا ہے کہ سعودی شہری خاتون کا احترام کرتے ہیں او ررشتہ زوجیت کی پاسبانی کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ ان میں طلاق کا نہ ہونا اس بات کی علامت نہیں کہ انکی شادی کامیاب چل رہی ہے۔
اگر ہم مسئلے کا حل چاہتے ہیں تو ہمیں کڑوی کسیلی سچائی تسلیم کرنا ہوگی۔ خود ساختہ بیداری نے ہمارے معاشرے کو اس مسئلے سے دوچار کیا ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان مکمل دیوار کا نتیجہ یہ ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: