Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عاصمہ جہانگیر، بہادر، نڈر، دلیر اور بے جھجک

***سید شکیل احمد***
         بہا در، نڈر ، دلیر اور بے جھجھک جیسے الفاظ عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر تبصرہ کر نے اور تعزیت کرنے والو ں کی طر ف سے مشتر کہ طور پر استعمال کئے جا رہے ہیں ۔عاصمہ جہا نگیر کا سیا سی،  سماجی سفر عاصمہ جیلا نی کی حیثیت سے شروع ہو ا اورعاصمہ جہانگیر کی حیثیت سے اختتام پذیر ہو ا ۔ ان کے والد ملک غلا م جیلا نی بیو رکریٹ تھے اور جب ایو ب خان کا مارشل لا لگا تو وہ اس وقت غالباًکمشنر کے عہد ے پر فائز تھے۔ انھو ں نے ما رشل لگتے ہیں نو کر ی سے استعفیٰ دید یا اور وجہ یہ بیان کی کہ مار شل لا ء کوئی قانو ن نہیں  اور وہ کسی آمر انہ حکومت کے ماتحت کا م کر نے کو تیا ر نہیں جس کے بعد انھو ں نے سیا ست میں حصہ لینا شروع کر دیا جس کا واحد مقصد ملک کو آمر انہ نظام سے نجا ت دلا نے کی جد و جہد تھی۔ ملک غلا م جیلا نی کا گھر ایک سیا سی آستانہ کی صورت اختیا ر کر گیا تھا جہا ں سیا ست دانو ں ، صحافیو ں ، دانشوروں کا ہمہ وقت جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ ان کی مہما ن نو ازی بابائے جمہوریت نو ابزدہ نصراللہ خان کی مہما ن نو از کے پہلو بہ پہلو تسلیم کی جا تی تھی 
        ذوالفقار علی بھٹو نے مشرقی پا کستان میں پی پی کی بنیا د نہیں رکھی تھی لیکن شیخ مجیب الرّحما ن نے مغربی پا کستان میں اپنی عوامی لیگ 6 نکا ت کی بنیا دپر رکھی تھی. ملک غلام جیلا نی ، سرفراز خان اورما سٹر خان گل جیسی بڑی شخصیا ت اس میں شامل تھیں جب یحییٰ خان نے مشرقی پا کستان میں فوجی ایکشن شروع کیا تو انھو ں نے عوامی لیگ کے مغربی پا کستان میں لیڈر و ں کو بھی نظر بند کر دیا تاکہ یہ لو گ فوجی ایکشن کے بارے میں زبان نہ کھولنے پائیں سقوط ڈھاکا کے بعد جب بھٹو نے چیف ما رشل لا ایڈمنسٹریڑ کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا تو ملک غلا م جیلانی نے بھٹو کو خط لکھا کہ ان کی شیخ مجیب سے ملا قات کر ائی جا ئے کیو ں کہ وہ جانتے ہیں کہ شیخ مجیب ملک تو ڑنانہیں چاہتے لیکن بھٹونے ان کے خط کا کوئی جو اب نہیں دیا اور نہ ملک غلا م جیلا نی کو رہا کیا جس پر عاصمہ جہا نگیر جو اس وقت قانو ن کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں وہ اپنے والد کی غیر آئینی اور غیر قانونی گرفتار ی کے خلا ف درخواست لے کر سپر یم کورٹ گئیں۔ انھو ں نے اس موقع پر متعدد وکلا ء سے اپنے والد کے مقدمے کی پیر وی کیلئے رابطہ کیا مگر کسی جی دار وکیل کی ہمت نہیں بندھی کہ وہ یہ تاریخی مقدمہ اپنے ہا تھ میں لے لے ۔بالآخر عاصمہ جیلانی نے سپریم کو ر ٹ سے رجو ع کر کے بتایا کہ وہ اپنے والد کا مقدمہ خود لڑیں گی۔ ایک طالب علم ہو نے کے باوجو د ایک با صلا حیت بیٹی نے مقدمہ لڑا جو پا کستان کی تاریخ کا ایک عظیم مقدمہ قرار پا یا ۔ ان کے والد کی رہا ئی کا فیصلہ بھی آیا اس کے ساتھ مارشل لا کے خلا ف بھی فیصلہ آیا۔ اسی فیصلہ میں جسٹس یعقوب علی نے جو بعد ازاں سپر یم کو رٹ کے چیف جسٹس بھی مقرر ہو ئے لکھا کہ یحییٰ ایک غاصب تھا۔ یہ سنہری الفاظ آج بھی مقدمے کا حصہ ہیں ۔
         عاصمہ جہا نگیر کی شخصیت ایک الجھا ؤ کی کفیت سے دوچار رہی ہے۔ ان کو مذہب سے لا تعلق جانا جا تا تھا۔ ان کا رحجا ن منفرد طر ز کا رہا ہے جہا ں وہ پا کستان میں جمہو ریت ، قانو ن کی حکمر انی ، انسانی حقوق کی جد و جہد میں نما یا ں رہی ہیں وہیں بعض سر گرمیا ں اہل پا کستان کو نا گوار بھی گزری ہیں۔ مثلا ًجب وہ خواتین کا ایک وفد لے کر ہند گئیں تو ہند کی سڑکو ں پر انھو ں نے رقص کیا جس کی تصویر یں بنوا کر میڈیا کو جا ری کیں ، بہر حا ل انسانی حقوق کے معاملے میں ان کے برابر کوئی نہیں آسکتا۔ انھو ں نے حقوق دلا نے کے لیے غریبوں کے درجنو ں مقد ما ت مفت لڑے۔ وہ گزشتہ جمعہ کو آخر ی مر تبہ سپر یم کورٹ میں ایک اے ایس آئی کو اس کی ملا زمت کی بحالی اور اس کے حقوق دلا نے کیلئے پیش ہو ئیں تھیں یہ مقدمہ بھی انھو ں نے انسانی ہمد ردی میں بلا معاوضہ لڑا ۔ عا صمہ جہا نگیر کو کئی بین الا قوامی اعزازات بھی حاصل ہیں انھیں ایشیا کا نو بل انعام ارامو ن میگ بھی دیا گیا۔یونیسکو پر ائز ، فرنچ لیجن آف آنر اور ما رٹن اینیلز ایو ارڈ بھی دئیے گئے ۔ انھیں اقوام متحد ہ کی جانب سے ایر ان میں انسانی حقوق کا نمائند ہ بھی مقر ر کیا گیا تھا ، ۔عاصمہ جہا نگیر کی بڑائی یہ تھی جو ان کے دل میں ہو تا وہ بیان کر دیتی تھیں چاہیے اس سے کسی کو کتنا ہی اختلا ف ہو ، نواز شریف کی نا اہلی کے بارے میں ان کے تبصر ے اس با ت کا ثبو ت ہیں حالا نکہ نو از شریف سے ان کی کوئی سیا سی یا ذہنی ہم آہنگی نہیں ۔ ان کو ہمیشہ روشن خیا ل ، آزاد منش ، اور بائیں بازو کے مکتب سے جا نا جا تا رہا ہے ۔
          یہ اس روز کا واقعہ ہے کہ آصف زرداری کی جا نب سے بھٹو مر حوم کو پھانسی کی سزا دیئے جا نے کے بارے میں سپر یم کو رٹ میںدائر ریفرنس کی سما عت تھی۔ ادھر ایبٹ آباد آپر یشن ایک رات قبل ہو ا تھا کہ عاصمہ جہا نگیر سپر یم کو رٹ کے احاطہ میںموجود ایک ایک وکیل کے پا س گئیں اور ان سے کہا کہ اسامہ بن لا دن جو بھی تھا لیکن اس کے خاند ان کو کیو ں گرفتا ر کیا گیا ہے۔ تما م وکلاء کو چاہیے کہ سب مل کر یہ آوا ز اٹھائیں کہ اسامہ بن لا دن کی بیو ی اور بچوں کو فوری رہا کیا جا ئے لیکن کسی وکیل نے اس بارے میں کوئی گرم جوشی نہیں دکھا ئی۔ عاصمہ سے بات سن کر ادھر ادھر کھسک جا تے۔ یہ ان کا بڑا پن تھا کہ وہ ان کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ جس لا بی سے تعلق رکھتی ہیں وہ انسانی حقوق کے حوالے سے اسامہ بن لا دن کے بچو ں کیلئے آواز بلند کر نے کی مہم چلا نے کیلئے قانو ن دانو ں کو راغب کرینگی۔ ممتا ز صحافی فدا عدیل نے ان الفاظ کیساتھ شاند ار تبصر ہ کیا ہے کہ عاصمہ جہا نگیر کے بارے میں بہا در ، نڈر اور دلیر جیسے الفاظ سبھی استعمال کر رہے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو بھی بے دھڑک اپنے مقاصد کیلئے جد وجہد کر تا ہے وہ بہا در ہو تا ہے اس میں شک بھی نہیں ہے۔ وہ کیا تھیں اللہ سے بہتر کوئی نہیں جا نتا ۔وہ اب اللہ کے پاس پہنچ گئیں  ۔اب ان کا اور اللہ کا براہ راست معاملہ ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ان کو غریق رحمت کر ے ۔سچ ہے کہ ان کے جا نے سے انسانی حقو ق کا زما نہ چلا گیا ۔اسی دن کیلئے شوکت واسطی  نے کہا تھا کہ 
 شوکت  ہمارے  ساتھ  بڑا  ظلم  ہو ا 
ہم  تو  رہ  گئے  ہما را  زما نہ  چلا  گیا 
 

شیئر: