وہ جہاں جاتی تھی ،اپنے ہنر مند ہاتھوں سے کوئی نہ کوئی چیز بنا کر لے جاتی
اُم مزمل۔جدہ
وہ ووکیشنل اسکول کی طالبہ تھی ۔اپنی بنائی ہوئی چیزوں کی باسکٹ اٹھائے ارد گرد سے بے خبر تیزی سے فاصلہ طے کر رہی تھی ۔ وہ اپنی گاڑی کی اسپیڈ کم کر کے اپنی سڑک سے ذیلی سڑک کا موڑ کاٹ رہا تھا۔ ایسا لگاکہ صبح سویرے کسی نے ڈھیروں خوبصورت پھولوں سے اسکی آمد کا استقبال کیا ہو۔
اس نے کچھ فاصلے پر گاڑی روک لی اور باسکٹ میں موجود مختلف اقسام کے رنگ برنگے پھولوں سے مزین خوبصورت گلدستہ دیکھنے لگا۔اسے ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا کہ وہ سب اصلی پھول ہیں جو کسی ہنر مند ہاتھوں سے بنی، اس خوبصورت، رنگین مخصوص تیلیوں سے بنی باسکٹ میں سجے سڑک کے ایک طرف سے دوسری طرف کا فاصلہ طے کرتے بالآخر اس آہنی دروازے میں داخل ہو گئے جہاں دو عدد
گارڈز اپنی ڈیوٹی پر تعینات تھے اور روڈکراس کرتی طالبات کے لئے ٹریفک کو رکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔
اسمارٹ فون میں مصروف وہ آج تک یہی سمجھتا رہا کہ جدید دنیا ہی اصل زندگی ہے، جب چاہا کہیں بھی آڈیو، وڈیو ملا لی اورایک نہ ختم ہونے والی گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اکثر تو ایسا بھی ہوتا کہ کسی سے کوئی بات شیئرکی اور پھر بات چیت شروع ہوگئی اور کسی دوست نے اگر اس دوران پوچھہ لیا کہ آج کل کس سے بات ہو رہی ہے تو نام تک یاد نہیں آتا کہ دراصل میں نے آجکل کن کن ناموں اور نیٹ فرینڈز سے اپنی فلاں فلاں چیزیں شیئرکی ہیں اور وہ سب کہاں کہاں تک پہنچ چکی ہیں ۔ لگتا ہے کہ ایک لا متناہی سلسلہ ہے جس کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اکثر مام کی بات کانوں تک پہنچتی کہ ایسی مصنوعی زندگی چند دنوں میں اپنا اثر کھودیتی ہے اور دنیامیں ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی اس قسم کا فتنہ پیدا ہوتا ہی رہتا ہے جو کچھ عرصہ گزرجانے کے بعد خود بخود اپنا اثر کھو دیتا ہے لیکن اس دوران بہت سے نادان اپنی زندگی کے اہم دور کو ضائع کر دیتے ہیں ۔دراصل ایسی لغویات کو معاشرے میں متعارف کرانے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ جدید ایجادات کے بل پر تجارت کی جائے، پیسے کمائے جائیں اور کم عقل لوگوں کے ذریعے انکے اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر دیا جائے تا کہ انکی اکثریت انٹرٹینمنٹ کے چکر میںدن رات گم رہ کر اپنی زندگی غیر فعال اور معاشرے کے لئے بوجھ بنا لے ۔ ایسی قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جس کے معمار اپنا وقت ضائع کریں۔
ایسا لمحہ ہر ایک کی زندگی میں ضرور آتا ہے جس میں وہ اپنے بارے میں سوچتا ہے، اپنا محاسبہ کرتا ہے اوراسے پھر سمجھ میں آتا ہے کہ اغیار نے کیسی چال چلی کہ ہمارا وقت بھی ضائع کیا اور ہماری صحت بھی بربادکی۔ ہم نے ایجادات کو فقط کام کے لئے استعمال کرنے کی بجائے انہیں اپنے گلے کا ہار ہی بنا لیا اور ہر وقت ریڈی ایشن کے باعث ہونے والے اس کے مضراثرات سے اپنے آپ کو نہ بچا سکے ۔
اس کی مام آج بہت خوش تھیں ۔وہ بتا رہی تھیں کہ قریبی ووکیشنل اسکول میں لگنے والی سوق خیریہ میں اپنے اسکول کے زمانے کی سہیلی سے ملاقات ہوگئی اور اسکی دیرینہ خواہش بھی اب پوری ہوتی نظر آرہی ہے کہ وہ دونوں سہیلیاں اب رشتہ دار بن جائیںگی۔وہ تو اپنے والد صاحب کی طرف دیکھ رہا تھا کہ وہ اب میرے لئے کیافیصلہ کرتے ہیں یعنی انہیں یہی کہنا چاہئے کہ اس کی مرضی بھی پوچھی جائے جس کی قسمت کا فیصلہ کیا جا رہا ہے لیکن وہ تو ایسی تنبیہی نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے کہ ایسے نااہل کا رشتہ ایسی تعلیم یافتہ اور ہنر مند لڑکی سے کیسے کیا جاسکتا ہے جو اپنے پروفیشنل کالج کی پڑھائی کو پس پشت ڈال کر دوستوںکے ساتھ صرف وقت ضائع کرنے پر تلا ہو ا ہو۔ ایسے لڑکے کو کون سا اچھا گھرانہ رشتہ دے گا؟
وہ اپنی خوشی میں اس کو بالکل برا بھلا نہیں کہہ رہی تھی۔ اس مسئلے کا حل یہ نکا لاگیا کہ پہلے ہم دونوں خاندانوںکا آپس میں ملنا جلنا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو دیکھ بھی لیں اور پڑھائی مکمل ہو جا نے پر نئی رشتہ داری کی بابت بات کی جائے۔
جب وہ لوگ اسکے گھر ڈنر پر آئے تو پھر اسے ایسا ہی لگا جیسے وہ ایک اور خوبصورت ٹوکری رنگ برنگے پھولوں سے سجائے اس کے لئے ہی لایا ہو۔ یہ جانے بغیر کہ وہ تو جہاں جاتی تھی ،اپنے ہنر مند ہاتھوں سے کوئی نہ کوئی چیز بنا کر ضرور لے جاتی تھی اور ایسا انکی ٹیچر کا کہنا تھا کہ جب خالق نے ہمیں ان گنت صلاحیتوں سے مالا مال فرمایا ہے تو ہمیں اس کا حق ادا کرنا چاہئے ۔ وطن کی آزادی کا احساس ہی اتنا دلآویز ہے کہ اس کی آبیاری کے لئے ہم جتنا کام بھی کریں ، وہ کم ہے ۔ شاہراہ ترقی پر متحد ہو کر چلنا ہی کامیابی کااصل راز ہے اور یہی ہماری تہذیب و تمدن اور ہماری اجتماعی زندگی کی دلکش تصویر ہے۔
٭٭جاننا چاہئے کہ مخلوق کو اپنے خالق سے ملاقات کا شوق اتنا قوی ہونا چاہئے کہ اس عارضی دنیا کی مشقت اس کی نظر میں کوئی معنی ہی نہ رکھتی ہو۔