لاہور.... امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے بعض ممالک کی طرف سے حج اور عمرے کے انتظامات کو سعودی عرب کے کنٹرول سے واپس لےکر ایک بین الاقوامی کمیٹی کے سپرد کرنے کے مطالبے کو مضحکہ خیز اور سیاسی محرکات کا حامل قرار دیا ہے۔ انٹرویو میں پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ سعودی نظام کے معاندین اس کی شہرت کو داغدار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ”یہ معاندین یہ بے بنیاد دعویٰ کرتے ہیں کہ عازمینِ حج کےلئے سیکیورٹی اور سہولتوں کا فقدان ہے لیکن ان کا یہ دعویٰ مضحکہ خیز اور بے سروپا ہے“۔انہوں نے کہا کہ ”عازمین ِ حج اور عمرے کیلئے سہولتوں اور خدمات میں مسلسل بہتری ہمیشہ سعودی قیادت کی ترجیح رہی ہے اور انھوں نے معاشی تنگی کے زمانے میں بھی ضیوف الرحمان کو مہیا کی جانے والی سہولتوں میں کوئی کمی نہیں ہونے دی۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حرمین شریفین اور دوسرے مقدس مقامات کی توسیع کا سلسلہ گزشتہ4عشروں سے جاری ہے اور اس پر بھاری رقوم صرف ہورہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں جب بھی سعودی عرب گیا ہوں تو میں نے حرمین شریفین میں توسیع ہی دیکھی ہے اور ان کی عمارتوں اور ڈھانچے میں اس توسیع کے نتیجے میں تو اس حد تک تبدیلی ہوجاتی ہے کہ ان کی جگہوں کو پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے۔سعودی حکومت ہمیشہ سے عازمین حج کو بہتر سے بہتر سہولتیں مہیا کرنے کیلئے اقدامات کرتی رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اب مقدس شہروں کو ٹرین کے دونظاموں کے ذریعے ہوائی اڈوں سے ملایا جارہا ہے۔یہ فاسٹ ٹرین اور لنک ٹرین کا نظام ہے۔طائف شہر میں ایک نیا ہوائی اڈا تعمیر کیا جارہا ہے تاکہ جدہ پر حج پروازوں کے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔پروفیسر ساجد میر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی معیشت میں گزشتہ چند ماہ سے بہتری آنا شروع ہو گئی ہے اور حکومت کی معاشی اصلاحات، نئے ٹیکسوں کے نفاذ اور کرپشن کے خاتمے کیلئے اقدامات نے اپنے نتائج دکھانا شروع کر دیئے ہیں۔ انہوں نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ سعودی حکومت نے تیل کی معیشت پر انحصار کم کرنے کےلئے دلیرانہ اقدامات کئے ہیں۔ان میں اشیاءکی فروخت پر جنرل سیلز ٹیکس اور تارکینِ وطن پر مختلف ٹیکسوں کا نفاذ، اشیائے ضروریہ پر زر تلافی کا خاتمہ اور گھریلو صارفین کیلئے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ وغیرہ شامل ہیں۔ بدعنوانیوں کے الزام میں سرکردہ شہزادوں، کئی سابق اور موجودہ وزراءکی گرفتاریاں کوئی معمولی معاملہ نہیں اور ان میں سے بہت سوں نے قومی خزانے سے لوٹی گئی اربوں ریال کی واپسی سے اتفا ق کیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ سعودی مملکت کے پالیسی سازوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں عوام کومہیا کی جانے والی سہولتوں میں کسی طرح کمی ہو اور نہ ان پر کوئی اضافی بوجھ پڑے۔پروفیسر ساجد میر کا سعودی عرب کی معاشی اصلاحات کے حوالے سے موقف ہے کہ اس نے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے پیش نظر اب اپنی پالیسیوں میں نمایاں تبدیلی کی ہے اور تیل کی معیشت پر بتدریج انحصار کم کرنے کےلئے وژن 2030ءکے تحت سخت معاشی اقدامات کئے ہیں۔کرپٹ عناصر کے خلاف کریک ڈاﺅن بھی اسی پالیسی کا نتیجہ ہے۔اب سعودی عرب کی اسٹاک مارکیٹ مضبوط ہوئی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار مملکت میں نئے پیدا ہونے والے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی تلاش میں ہیں۔سینیٹر ساجد میر کا کہنا تھا کہ ریاستی مشینری میں کرپشن کے حوالے سے کسی سے بھی رو رعایت نہ برتنے (زیر ٹاولرنس) کی پالیسی اب ایک عالمی قدر بن چکی ہے۔غیر ملکی تارکین وطن پر نئے ٹیکسوں کے نفاذ کو ایک بوجھ کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ یہ سعودی مملکت کی اپنے شہریوں کو غیرملکی ملازمین کی جگہ ذمہ داریاں سونپنے اور تعینات کرنے کی خواہش کا مظہر ہیں۔سعودی عرب اپنی مقامی افرادی قوت کو بروئے کار لانا چاہتا ہے تاکہ قیمتی زرمبادلہ کو بچایا جاسکے اور سعودیوں کی بڑی تعداد حکومت کے وظائف پر گزارہ کرنے کے بجائے خود کوئی کام کاج کرے۔انہوں نے کہا کہ سعودی مملکت پر مختلف سمتوں سے لاحق سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کےلئے سخت دباﺅ تھا کیونکہ اس کو ان خطرات سے نمٹنے کےلئے بھاری رقوم بھی صرف کرنا پڑتی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے مختلف شہروں کی جانب اب تک سیکڑوں میزائل فائر کئے ہیں اور ان میں ایک بیلسٹک میزائل مکہ مکرمہ کی جانب بھی فائر کیا گیا تھا لیکن خوشی قسمتی سے سعودی عرب کے فضائی دفاعی نظام نے ان تمام میزائلوں کو فضا ہی میں ناکارہ بنادیا تھا۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی سال سے سعودی عرب کو اپنی اہم تنصیبات پر دہشت گردی کے حملوں کا سامنا رہا ہے۔ غیر ملکی حمایت یافتہ دہشت گرد اور سعودی عرب کے اندر درانداز ی میں کامیاب ہونے والے باغی گروپ یہ حملے کرتے رہے ہیں لیکن مملکت کی سکیورٹی فورسز نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تعاون سے ان دہشت گرد اور تخریبی عناصر کے مذموم مقاصد کو ناکام بنا دیا ہے اور ان کا قلع قمع کر دیا ہے۔