سعودائزیشن کیسے کامیاب ہو؟
مرام مکاوی ۔ الوطن
اس میں کوئی شک نہیں کہ بے روزگاری بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اگر تمام ممالک نہ سہی تو زیادہ تر ممالک کی حکومتوں کی نیند بے روزگاری کے مسئلے نے ہی اڑائی ہوئی ہے۔ معاشرے کے زیادہ تر مسائل طلاق، جرائم، منشیات، ذہنی پراگندگی اور ڈپریشن کے پیچھے بھی اسی مسئلے کا ہاتھ ہے۔
یہ کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ غیر ملکی کارکنان اور تارکین وطن کے خلاف عداوت اور نسلی تفریق کا بنیادی محرک بھی بے روزگاری کا مسئلہ ہی ہے۔ تارکین کے خلاف عداوت بڑے صنعتی ممالک میں بھی پائی جارہی ہے۔ سعودی عرب غیر معمولی دولت اور نوجوان افرادی قوت کے باوجود اس مسئلے کی زد سے آزاد نہیں ۔ محکمہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مملکت میں بے روزگاری کی شرح گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں 12.8فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
ملازمت کے بغیر کوئی بھی انسان معمول کی باوقار زندگی نہیں گزار سکتا۔ نہ ہی وہ خاندان بنا سکتاہے لہذا بے روزگاری کا مسئلہ معاشرے کے امن و استحکام کے تحفظ کی خاطر غیر معمولی توجہ چاہتاہے۔ وطن عزیز کی جامع ترقی کیلئے بھی بے روزگاری کے مسئلے کا حل ناگزیر ہے۔ سعودائزیشن کا مطلب ہے مقیم غیر ملکیوں کی جگہ سعودی شہریوں کو روزگار فراہم کرنا۔ کئی عشروں سے سعودی عرب اس پالیسی پر گامزن ہے۔ خلیجی ممالک میں بھی اس کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ جی سی سی ممالک کے نوجوان بے روزگاری کے مسئلے سے دوچار ہوں، عالمی برادری کیلئے یہ عجیب سی بات ہے۔ عجیب اس لئے کہ یہاں کی 50فیصد سے زیادہ آبادی مقامی شہریوں کی نہیں بلکہ غیرملکیوں کی ہے۔ غیر ملکیوں کو ایسے کاموں کیلئے ویزے دیکر بلایا گیا ہے جنہیں خلیجی شہری انجام نہیں دے سکتے یا ان کیلئے وہ کام کرنے مشکل ہیں۔ یہ بات واقعی بری لگتی ہے کہ مقامی کمپنیوں کے مالکان باہر سے ملازم لائیں اور ان کے ہم وطن ملازمت سے محروم ہوں۔ سعودی سرمایہ کار اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ہمارے ہم وطنوں کے پاس ڈگریاں ہیں لیکن ان کی ڈگریاں لیبر مارکیٹ کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہیں۔
سعودی عرب کے بعض قوانین آجر کو کچھ ایسے اختیارات دیئے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے سعودیوں کیلئے نجی اداروں میں کام کرنا وقار کے منافی لگتا ہے۔ آجر کو حق ہے کہ وہ جس کو جتنی چاہے تنخواہ دے۔ اس کی وجہ سے مقامی شہری اور غیر ملکی ملازم کی تنخواہ میں بسا اوقات کافی فرق ہوجاتا ہے۔
سعودائزیشن کے حوالے سے سرکاری دباﺅ پر نجی اداروں نے بہت سارے مقامی شہریوں کو ملازم رکھ لیا ہے ۔ مقامی شہریوں کا ان سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ الجھتے ہیں کیونکہ خریدو فروخت ، گاڑیوں کی اصلاحات کی ورکشاپس، بقالوں، پٹرول اسٹیشنوں اور استقبالیہ پر کام کرنے والے سعودی ملازم مقامی شہریوں کے ساتھ مطلوبہ انداز سے پیش نہیںآتے۔ وجہ یہ ہوئی کہ سعودیوں کی ڈگریاں کچھ ہیں اور ان سے کام کچھ اور لیا جارہا ہے۔ انہیں روزگار کی تربیت بھی نہیں دی گئی۔ نجی اداروں نے انہیں فوری بے ہنگم دباﺅکے تحت ملازم رکھ لیا ہے اپنی مرضی سے نہیں ۔ اسی طرح اب خواتین کو مختلف شعبوں میں ملازمتیں دی جارہی ہیں۔ اس صورتحال سے نئے مسائل جنم لیں گے۔ حق اور سچ یہ ہے کہ کوئی بھی سعودائزیشن کے خلاف نہیں ، سعودائزیشن کے طریقہ کار کے خلاف بیشک ہیں۔
سب لوگ جانتے ہیں کہ کھلے مقامات پر سعودی خواتین نے کبھی کام نہیں کیا۔ تعلیم ، صحت اور بینکوں میں کام کرتی رہی ہیں۔ خواتین ذہین ہوتی ہیں،اچھی کارکردگی میں یقین رکھتی ہیں۔ کھلے مقامات کی ملازمت سے مسائل پیدا ہونگے البتہ زنانہ ملبوسات اور لوازمات کی دکانوں پر ملازمتوں میں کامیاب رہیں گی۔
مجھے ذاتی طور پرغیر ملکی کمپنیوں کے تجارتی مراکز میں سامان فروخت کرنے والی سعودی خواتین کے ساتھ خوش اسلوبی کے تجربا ت ہیں، اچھے ہیں۔ اگر ہم مذکورہ شعبوں کو ایک طرف رکھ کرایسے شعبوں کی بات کریں جہاں ملازمت کیلئے یونیورسٹی کی ڈگری درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اشتہارات، تعلقات عامہ، مارکیٹنگ ، انجینیئرنگ، حساب کتاب ، کوالٹی کنٹرول اور کنسلٹنسی وغیر ہ ان تمام شعبوں میں سعودی کہیں نظر نہیں آتے۔
دوسری جانب فیملی فیس اور مختلف ٹیکسوں کی وجہ سے تارکین وطن مملکت چھوڑنے لگے ہیں۔ واپسی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ محدود آمدنی والوں کیلئے رہنا محال ہوگیا ہے۔ ویزوں کا اجرا جاری ہے۔ جو ملازمتیں خالی ہونگی انہیں سعودی پرنہیں کرینگے ، اعلیٰ تنخواہوں والے غیرملکی رہنا چاہیں گے ۔ان کی ملازمتیں سعودیوں کیلئے خالی نہیں ہونگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں سعودائزیشن کا قومی ہدف حاصل کرنے کیلئے اس کی بہترین حکمت عملی بھی مرتب کرنی پڑیگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭