Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یمنی بچے سے جبری گداگری، سوشل میڈیا سمیت پولیس متحرک

’وہ مجھ سے گداگری کرتا ہے، مجھے مارتا ہے، مجھے اپنی ماں کے پاس واپس جانا ہے‘ ( فوٹو: ایکس)
سوشل میڈیا پر ایک یمنی یتیم بچے کی المناک ویڈیو وائرل ہوگئی جس نے دیکھنے والوں کو نہ صرف رلا دیا بلکہ پولیس کے محکمے کو بھی متحرک کردیا۔
واقعہ شروع سے سنیں۔
ہوا یوں کہ سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ کو ریاض شہر کے کسی سڑک پر یمنی گداگر بچہ نظر آیا جو نہ صرف شکل سے نہ بدحال تھا بلکہ آنسوؤں کو مشکل سے روک پا رہا تھا۔
جب بچے سے حال احوال معلوم کیا تو انکشاف ہوا کہ ایک درندرہ صفت شخص جسے انسان کہنا کسی طور جائز نہیں، اس نے اس معصوم بچے کو کام دلانے کے بہانے یمن سے غیر قانون طور پر سرحد پار کرائی اور جبری مشقت کراتے ہوئے ریاض میں گدگرای کراتا رہا۔
بچے نے روتے ہوئے اپنا حال بیان کیا۔
میری ماں بیمار ہے، اس کے علاج کے لیے میں اس شخص کے ساتھ چلا آیا۔ وہ مجھ سے گداگری کرتا ہے، مجھے مارتا ہے، مجھے سخت سزا دیتا ہے، مجھے اپنی ماں کے پاس واپس جانا ہے۔
اور پھر آنسوؤں نے اسے کچھ کہنے نہ دیا۔
ویڈیو شیئر ہوتے ہی سوشل میڈیا میں ہاہاکار مچ گئی، پولیس کا پورا محکمہ متحرک ہوگیا اور بچے سے رابطہ کرکے چند گھنٹوں میں مجرم کو گرفتار کرلیا۔
یمنی بچہ اعزاز و اکرام کے ساتھ حکومت کی میزبانی میں آگیا جس نے اس کے ساتھ حسن سلوک کیا۔
سوشل میڈیا پر متعدد افراد نے بچے اور اس کی ماں کی زندگی بھر کفالت کا ذمہ لے لیا جبکہ شاہی خاندان کے ایک فرد نے ماں کے علاج کی پوری ذمہ داری لے لی۔
سعودی عرب میں گداگروں  کی مدد کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے کیونکہ بھیک مانگنا ایک ایسا جرم ہے جس میں کمزور طبقے، خاص طور پر بچوں اور خواتین کو استعمال کیا جاتا ہے۔
سعودی وزارت داخلہ نے بارہا اس مسئلے کی سنگینی پر زور دیا ہے، یہ بتاتے ہوئے کہ بھیک مانگنا اکثر منظم گروہوں سے جڑا ہوتا ہے جو مظلوموں کو بے رحم طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔
 اکٹھا کیے گئے پیسے دشمن عناصر یا دیگر مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔
سعودی عرب میں انسانی سمگلنگ کے خلاف قانون کے مطابق، ان جرائم کے مرتکب افراد کو 15 سال تک قید، دس لاکھ ریال تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
 اگر جرم کسی بچے یا غیر قانونی صورت حال میں کسی شخص کے خلاف کیا گیا ہو، جیسا کہ یمنی بچوں کے استحصال کے معاملات میں ہوتا ہے تو سزا اور بھی سخت ہو جاتی ہے۔
لہٰذا بھکاریوں کو براہ راست مالی مدد دینے کے بجائے، سرکاری اداروں اور منظور شدہ خیراتی تنظیموں کی طرف رجوع کرنے کی سفارش کی جاتی ہے، جو قانونی اور محفوظ طریقے سے ضرورت مندوں کی مدد کرتی ہیں۔

شیئر: