Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”آدمی کو سانپ نے ڈس کر کہا :: آپ نے خود ہی تو پالا تھا مجھے “

خرم عباسی۔منامہ
مشاعروں کی تاریخ کے حوالے سے ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں کہ دلّی میں ایک شاعر تھے خواجہ میر درد ، ان کے یہاں ہر مہینے مشاعرہ ہوتا تھا جسے زبانِ اردو کے پرانے نام ”ریختہ“ کی مناسب سے ”مراختہ“ کہا جاتا تھا۔ خواجہ صاحب نے میر تقی میر سے کہا کہ یہ مراختہ تم اپنے یہاں کیا کرو۔ مطلب یہ تھا کہ مشاعرہ میرکے یہاں ہوگا تو انہیں شاعروں میں اعتبار بھی حاصل ہوگا۔ لوگوں سے شناسائی بھی بڑھے گی اور ادبی حیثیت بھی مستحکم ہوگی۔ کیا دل نواز طریقے تھے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کے۔ پھر اسی دلّی کے ایک مشاعرے میں انشااور عظیم کا وہ مشہور معرکہ ہوا جس نے اردو شاعری کو ایک ضرب المثل مصرع ”وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے“ عطا کیا۔ یہ مقابلے کا پہلو تھا۔ شعرا ایک ایک قافیے کے لئے جان لڑا دیتے تھے۔ ہر ہر پہلو سے غور کرتے تھے۔ کوئی قافیہ رہ نہ جائے۔ شعر میں کوئی عیب نہ ہو۔ استاد اپنے شاگردوں کو ساتھ لئے مقابلے پر کمربستہ مشاعروں میں اپنے اپنے مقام پر بیٹھے پہلے اپنے شاگردوں اور دوسرے اساتذہ کے شاگردوں کا کلام دشمن کے کانوں سے سنتے اور جب شمع اساتذہ فن کے سامنے آتی تو سب سنبھل کر بیٹھ جاتے۔ مشاعرے ہی شاعر اور شاعری کے کھوٹے کھرے کی آزمائش ہوتے تھے۔
1857 کے بعد مشاعروں کی روایت دلّی اور لکھنﺅ سے نکل کر رام پور، حیدرآباد، عظیم آباد اور لاہور میں پھولی پھلی۔ امیرو داغ کی وجہ سے رام پور کے مشاعروں میں بڑا زور پیدا ہوگیا تھا۔ مشاعرے میں کسی شاعر کا شعر سن کر اسے تخلیقی انداز سے اپنے رنگ میں ڈھال لینے کی روایت یہاں بہت کامیاب رہی۔19ویںصدی کے آخر تک تعلیم کے فروغ، تہذیبی پاس داری، ذرائع آمدورفت کی سہولت اور لسانی قربت کی وجہ سے مشاعروں کی روایت برصغیر کے گوشے گوشے میں عام ہوگئی۔ نئے شعری اور ادبی مرکز وجود میں آئے اور مشاعرے کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ 
آج کے دور میں فاصلے گھٹ گئے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے زیادہ قریب آگئے ہیں۔ اردو زبان ملکوں ملکوں پھیل گئی ہے۔ اس پھیلاﺅ میں مشاعرے بھی برابر کے شریک ہیں۔ بحرین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، انگلستان، کینیڈا، امریکہ ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، ہر ملک میں مشاعرے ہوتے ہیں اوردھوم دھام سے ہوتے ہیں۔علوم کی فراوانی نے شاعری کو متاثر کیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں شاعری کا مطالعہ بہت کم ہو جائے گا اور یہ جزوِ زندگی نہیں رہے گی مگر مشرق کا مزاج شعری آہنگ کا مزاج ہے۔مشاعرہ برقرار رہے گا، مشاعرے کی علمی، ادبی، تہذیبی اور شعور کو جلا بخشنے والی خصوصیت برقرار رکھنے کے لئے مجلسِ فخر بحرین برائے فروغِ اُردو نے ایک باوقار شناخت رکھنے والا "عالمی مشاعرہ بیادِ پنڈت برج نرائن چکبست 2018ء"منامہ کے ہوٹل میں منعقد کیا جس میں مقامی اور بیرون ملک سے آئے ہوئے شعرائے کرام نے کلام پیش کیا۔ صدارت کی کرسی پرعربی ادب کا بڑا معتبر نام، ممتاز عالم دین، کہنہ مشق صاحبِ قلم، نکتہ سنج محقق اور باکمال شخصیت استاد شعیب نگرامی جلوہ افروز تھے۔ نظامت کے فرائض آلوک شریواستو نے ادا کئے۔ چکبست کے نواسے کرنل راجکمارکک بطورمہمان خصوصی شریک ہوئے۔
مشاعرے میں برصغیرسے شرکت کے لئے آنے والے شعرائے کرام میں انور شعور، طاہر فراز،پاپولر میرٹھی،راجیش ریڈی،شاہد ذکی،علینا عترت، اقبال اشہر،عبدالرحمن مومن،آلوک سریواستو، سعودی عرب سے خالد صبرحدی اور بحرین سے احمدامیر پاشا،اقبال طارق اوراسداقبال نے کلام پیش کیا۔
ہندوستان کے مہمان شاعر اقبال اشہر نے مشاعرے کی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے معزز مہمانان، شعرائے کرام اور سامعین کا استقبال کیا بعد ازاں مشاعرے کی صدارت کے لئے استاد شعیب نگرامی کو اسٹیج پر مدعو کیا گیا۔ مہمان خصوصی راجکمارکک کو تالیوں کی گونج میں اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی۔محترمہ رشی کک کا بھی پرتپاک استقبال کیا گیا۔مسلسل چھٹے سال عالمی مشاعروں کی انجمن آرائی کرنے والی ادب دوست، ادب فہم اور ادب نواز شخصیت، بانی مجلس، شکیل احمد صبرحدی کی اردوزبان وادب کے لئے پرخلوص خدمات کا ذکر کرتے ہوئے انہیں کلماتِ تشکّر اورخطبہ استقبالیہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہمہ وقت اردو کے فروغ کے لئے اپنی کوششوں کا دائرہ وسیع تر اور بامقصد ترین بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ مجلس اس بات پر مکمل یقین اور اعتماد رکھتی ہے کہ اردو کسی خاص مذہب یا فرقے کی زبان نہیں۔ اس زبان کی نشونما اور فروغ میں ہر مذہب کے ماننے والوں کا اہم کردار رہا ہے۔ اس بار بھی چکبست کے فن اور ان کی شخصیت پر ایک بہت اہم کتاب مجلس کی جانب سے شائع کی گئی ہے جس کی تحقیق وتدوین کا کام مجلس کے مشیرِ خاص عزیز نبیل نے انجام دیا ہے۔ عزیز نبیل کچھ ناگزیر وجوہ کی بنا پر تشریف نہیںلاسکے ہیں۔ ان کی مرتب کردہ کتاب ، مشاعرے کے خوبصورت مجلے اور شاہد ذکی کے شعری مجموعے "دھنک دھوئیں سے اٹھی" کی رسم اجراءادا کی گئی۔ مجلس کی ویب سائٹ کا افتتاح بھی کیا گیا۔ رسمِ اجراءاور افتتاح کے بعد اقبال اشہر نے چکبست کی شخصیت اورفن پر بات کرنے کے لئے مشاعرے کے مہمان خصوصی نواسہ چکبست کرنل راجکمارکک کو دعوت دی۔ انہوں نے اس شام کے انعقاد پرخوشی کا اظہار کیا ، شکیل احمد صبرحدی کا شکریہ ادا کیا اور پنڈت برج نرائن چکبست لکھنوی کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی۔ بعدازاں ناظمِ مشاعرہ آلوک سریواستو کو دعوتِ نظامت دی گئی۔ شعرائے کرام نے بہت خوبصورت اشعار سے سامعین کو نوازا اور داد حاصل کی۔ مشاعرے میں پیش کئے گئے کلام سے اقتباس نذرِ قارئین :
 ٭٭انور شعور نے غزل پیش کر کے خوب داد پائی۔
٭٭طاہر فراز:
میری نظر میں ایسی زمینیں بھی ہیں فراز
جن کی طرف کوئی بھی سخنور نہیں گیا
٭٭پاپولر میرٹھی: 
آپریشن خوب ہی مضمون کے کرتا ہوں میں 
 ذہن میرانوکِ نشتر کی طرح ممتاز ہے 
٭٭راجیش ریڈی: انہوں نے بھی اپنا کلام پیش کیا اور داد پائی۔
٭٭شاہد ذکی:
میں بدلتے ہوئے حالات میں ڈھل جاتا ہوں
 دیکھنے والے اداکار سمجھتے ہیں مجھے 
٭٭ علینا عترت: 
اضطرابی کیفیت ہی اس زمیں کا ہے نصیب
 ہر گھڑی گردش میں ہے ،ہر دم پریشانی میں ہے
٭٭ اقبال اشہر:
یہ وہ صحرا ہے سجھائے نہ اگر تو رستہ 
خاک ہو جائے یہاں خاک اڑانے والا 
٭٭ آلوک سریواستو :
یہ جسم کیا ہے کوئی پیرہن ادھار کا ہے
 یہیں سنبھال کے پہنا ،یہیں اتار چلے
٭٭ عبدالرحمن مومن:
دل تو یہ چاہتا تھا وہ بھی کہے
میں ہی کہتا رہا کہ خوش ہوں میں
٭٭ احمد امیر پاشا:
ہم اپنے دل کا یہ آباد شہر ہجرو وصال 
 خیال یار ترے جنگلوں پہ وارتے ہیں
٭٭ اقبال طارق: 
کچھ نہیں ہے سخنوری مولا 
جب تلک تو نہ آگہی بخشے 
٭٭ خالد صبرحدی:
دیا الفت کا تھا ہر دل میں روشن
 تھے سب کچے مکاں لیکن وہ گھر تھے
٭٭اسد اقبال:
آدمی کو سانپ نے ڈس کر کہا 
 آپ نے خود ہی تو پالا تھا مجھے 
 

شیئر: