Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انتہا پسندی اور انحطاط سے آزاد اعتدال

ابراہم محمد با داود ۔ المدینہ
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے تقریباً6بر س قبل جدہ کی کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں ایک لیکچر دیا تھا۔ اس وقت وہ ولی عہد ہوا کرتے تھے۔ لیکچر کا موضوع تھا ”شاہ عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی میں اعتدال“ شاہ سلمان نے مذکورہ لیکچر دیتے ہوئے کہاتھا کہ اعتدال عظیم منہاج کا دوسرا نام ہے۔ اعتدال ہمارے دینی اور دنیاوی امور کا حکمراں اصول ہے۔اسکا مقصد مفاد عامہ کا حصول ہے۔ اسکا ہدف بھلائی اور داد و دہش کا حصول ہے۔ شاہ سلمان نے اس موقع پریہ بھی کہا تھا کہ ”اعتدال ایسی بات نہیں جسے بول دیا جائے۔ یہ کسی موقف یا بلند کئے جانے والے نعرے کی تعبیر نہیں۔ یہ مکمل منہاج ہے۔ یہ مفاد عامہ کے حصول کے ضامن اصول کی پابندی کا نام ہے۔ یہ ترقی اور بھلائی کو یقینی بنانے والا اصول ہے“۔ 
شاہ سلمان نے حال ہی میں مجلس شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے اعتدال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا پیغام یہ ہے کہ ہم اپنے درمیان کسی ایسے انتہا پسند کوبرداشت نہیں کرسکتے جو اعتدال پسندی کو انحطاط مانتا ہو اور روا داری کے علمبردار ہمارے عقیدے سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے مخصوص اہداف کیلئے کوشاں ہو۔ ہمارے درمیان ایسے انحطاط پسند شخص کیلئے بھی کوئی جگہ نہیں جوانتہا پسندی کے خلاف ہماری جدوجہد کو انحطاط کے پرچار کا وسیلہ سمجھتا ہو اور دین کی آسانی کی خوبی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے اہداف پورے کرنا چاہتا ہو۔ جو شخص بھی اس ڈگر سے تجاوز کریگا ہم اسکا احتساب کرینگے“۔
آج ہمیں اس طریقہ کار کی ضرورت ہے۔ان دنوں ہم تبدیلی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم انصاف اور اعتدال کو اپنا حقیقی مشن بنائیں۔ ظاہری طور پر عدل و اعتدال کی باتیں نہ کریں۔ تبدیلی کے اس مرحلے میں نہ سہل پسندی کام آئیگی اور نہ ہی شدت پسندی موثر ثابت ہوگی۔ اس مرحلے میں ہم کسی بھی فریق کو من مانی کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اپنے ماحول کو مکدر کرنے کا موقع نہیں دے سکتے۔ اعتدال اور میانہ روی ہی شاندار زندگی کی حقیقی حکمت عملی ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جسکا ہم دھیان رکھتے ہیںجس کے ہم پابند ہیں۔ ہم ایسے دودھاروں کے درمیان کھڑے ہیں جن میں سے ہر ایک ہماری زندگی کے بعض گوشوں کو یرغمال بنانے کے درپے ہے۔ ان میں سے ایک ہمیں انتہا پسندی اور شدت پسندی کی جانب بلا رہا ہے اور دوسرا مادر پدر آزاد کھلے پن کو اپنانے کی دعوت دیتا ہے۔ اس دور میں جو فتنوں کاد ور ہے ہمیں نجات حاصل کرنے کیلئے صرف اور صرف اعتدال اور میانہ روی ہی سے کام لینا پڑیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: