Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رمضان کیساتھ نمود و نمائش والے بھی چہکنے لگے

احمد الرضیمان ۔ الوطن
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کی آمد پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو نوید سناتے تھے کہ آسمان کے دروازے کھولدیئے گئے۔ دوزخ کے دروازے بند کردیئے گئے۔ شیاطین کے پیروں میں زنجیریں ڈالدی گئیں۔ اس میں شب قدرآئیگی جو ہزار ماہ سے بہتر ہوگی۔
رمضان المبارک بلا شبہ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ اس ماہ کے دوران جنت کے دروازے کھولدیئے جاتے ہیں۔ دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔ شیطان پابہ زنجیرکردیئے جاتے ہیں۔ یہ ساری باتیںصحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ رمضان کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس میں ایک عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہوتا ہے۔ انہی سارے فضائل کے باعث اہل اسلام ماہ مبارک کے دوران اچھے کام ذوق و شوق سے کرتے ہیں۔ نماز کی پابندی ، قرآن کریم کی تلاو ت اور عام دنوں کے مقابلے میں صدقات و خیرات کا زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہر بندہ خالق ارض و سماں سے برکتیں سمیٹنے کیلئے زیادہ سے زیادہ اچھے کام کرتا ہے۔
مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ جب بھی رمضان المبارک کی آمد ہوتی ہے تو کچھ لوگ جان بوجھ کر حوصلہ شکن حرکتیں کرتے ہیں اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کیلئے سارا زور لگادیتے ہیں۔ نمایاں ترین یہ ہیں:
٭ رمضان المبارک کی شروعات اور اختتام کے بارے میں تنازعات برپا کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ حکومت نے رویت ہلال کا بندوبست کررکھا ہے۔ یہ کام اسکا ہے کہ وہ چاند ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ سنائے ۔ عدالتوں کی جانب سے اپیل کی جاتی ہے کہ اگر کسی نے چاند دیکھا ہو تو پہلی فرصت میں اپنی شہادت قلمبندکرادے۔ بعض لوگ اس پر انحصار کے بجائے سوشل میڈیا، نجی مجلسوں او راخبارات کا رخ کرتے ہیں۔ ایک ہنگامہ برپا کردیتے ہیں۔ رویت کے ہونے نہ ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات کا طوفان کھڑا کردیتے ہیں۔ یہ کام ہر سال کیا جاتا ہے۔
٭ رمضان میں نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ خاص طور پر فجر کی نماز میں صفیں کافی طویل ہوتی ہیں۔ یہ دیکھ کر دل جھوم اٹھتا ہے۔ لوگوںکو اچھے کام کرتے ہوئے دیکھ کر اور اچھائی کیلئے یکسو پا کر دلی مسرت حاصل ہوتی ہے مگر بعض لوگ اس منظر سے لطف اٹھانے کے بجائے مسجد میں آنے والے نمازیوں کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے یہ نعرہ ضرور لگاتے ہیں کہ آپ لوگ رمضان سے پہلے کہاں تھے؟ کتنے برے ہیں یہ لوگ جو رمضان میں ہی اللہ کو یاد کرتے ہوں۔ اس قسم کی تنقید کرنے والے یہ سچائی بھول جاتے ہیں کہ رمضان المبارک کے دوران اہل خانہ ایک ساتھ مل جل کر افطار اور سحر کرتے ہیں۔ اپنی بعض سرگرمیاں کم کردیتے ہیں۔ ایک جگہ ہونے کے باعث ایک ہی وقت میں مساجد میں حاضری کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ عام دنوں میں لوگ سفر میں ہوتے ہیں۔ ڈیوٹی کے اوقات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ یہ ساری باتیں مد نظر رکھ کر تنقید کے تیر چلانے سے باز رہیں تو کیا ہی اچھا ہو۔
٭ روزہ داروںکو افطار کرانا و صدقہ و خیرات کرنا فلاحی انجمنوں کے ذریعے کار خیر ہے۔ بعض لوگ اس حوالے سے بھی حوصلہ شکنی کرنے سے باز نہیں آتے۔ کئی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ آپ لوگ جو مزدوروں کو افطار کراتے ہیں ِآخر اسکا کیا فائدہ ہے۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو نماز تک نہیں پڑھتے۔ انہیں افطار کرانے سے کوئی اجر نہیں ملے گا۔ میں کہتا ہوں کہ اس قسم کی باتیں کرنے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ یہ کہہ دینا کہ وہ نماز نہیں پڑھتے زیادتی کی بات ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اس مسجد میں نماز نہ پڑھتے ہوں جہاں آپ پڑھتے ہوں۔ بفرض محال یہ بھی مان لیا جائے کہ وہ نماز نہیں پڑھتے تو اس بات کی کیا دلیل ہے کہ ایسے لوگوں کو افطار کرانے سے اجر نہیں ملے گا۔ اللہ تعالی تو بھوکے پیاسے کتے کو کھلانے پلانے پر بھی اجرد یتا ہے۔ ایک بدکار خاتون کی بخشش صرف اس بناءپر کردی گئی کہ اس نے پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا۔ انسان بہرحال اس کتے سے بہتر ہے۔ اسلام نے غیر مسلموں کو اپنی جانب مائل کرنے کیلئے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔
٭ تراویح :۔ تراویح 11رکعت پڑھی جائیں یا 13 یا 20 یا کم یا زیادہ سب پر ثواب ہے۔ بعض تو11رکعت سے زیادہ تراویح پڑھنے کے خلاف علم بلند کردیتے ہیں۔ کئی لوگ زیادہ رکعتیں پڑھتے ہیں مگر خشوع خضوع اور حاضری و حضوری کا دھیان نہیں رکھتے لہذا اگر کوئی کم رکعتیں پڑ ھ رہا ہے اور اچھی طرح سے پڑھ رہا ہے تو اس پر ان لوگوں کو ہنگامہ نہیں کرنا چاہئے جو زیادہ رکعتیں پڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح سے کم رکعتیں پڑھنے والے زیادہ رکعتیں پڑھنے والوں کے خلاف لب کشائی نہ کریں۔ ہوسکتا ہے کہ انکی زیادہ رکعتیں انکی نماز میں پائی جانے والی خامیوں کے تدارک کا باعث بن جائیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: