Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا مکہ مکرمہ کو جدید تربنایا جاسکتا ہے؟

 عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
میں طیارے سے لندن جارہا تھا۔ مسافروں پر نظرڈالنے سے پتہ چلا کہ 50فیصد وہ لوگ ہیں جو رمضان المبارک کے دوران عمرے کیلئے مکہ مکرمہ پہنچے تھے۔ ایمان افروز روحانیت سے معمور مقدس شہر رمضان المبارک کے دوران دنیا بھر سے آنے والے فرزندان اسلام سے آباد ہوجاتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں مسلمان عمرے کیلئے آتے ہیں۔خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اسی ماہ مبارک کے دوران مکہ مکرمہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کا حکم جاری کیا۔ 3ماہ بعد اسکی تفصیلات منظر عام پر آئیں گی۔ میں یہ فرض کرکے چلتا ہوں کہ جب مکہ مکرمہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنی تاسیس کا مرحلہ مکمل کرلے گی تو اسکی بدولت عمرے او رحج پر آنے والوں کے لئے خدمت کا تصور تبدیل ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ خود مکہ مکرمہ کی شکل تبدیل ہوگی۔ نیا مکہ ماضی کی بنیادوں سے مختلف بنیادوںپر استوار کیا جائیگا۔ ڈیولپمنٹ اتھارٹی بااختیار ہوگی۔ آزاد ہوگی۔ نوکر شاہی کے پھندوں میں پھنسی ہوئی نہیں ہوگی۔ اتھارٹی کے اندر کام اور اسے انجام دینے کا جذبہ یکساں شکل میں ہوگا۔ اس جذبے اور اس عمل میں تعطل پیدا کرنے والی نوکر شاہی کاعمل دخل نہیں ہوگا۔ 
تاریخی واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ 80برس کے دوران سعودی عرب کے تمام حکمرانوں نے مکہ مکرمہ کو اپنی آنکھوں میں رکھا۔ یہ اسلامی دنیا کا دارالحکومت ہے۔ ایک ارب سے زیادہ مسلمان اسی کا رخ کرکے پنج وقتہ نمازیں ادا کرتے ہیں۔ درپیش نئے افکار یہ ہیں کہ ماضی میں تنصیبات کی تعمیر پر توجہ مرکوز کی جارہی تھی۔ خاص طور پر مسجد الحرام مکہ مکرمہ کی توسیع سعودی حکمرانوںکا ہدف رہا۔ توسیع کی بدولت حرم شریف کے رقبے میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ اسکی بدولت یہ تاریخ کی سب سے بڑی عمارت بن گئی۔ جہاں تک نئے منصوبے کا تعلق ہے تو اسکا ہدف لاکھوں مسلمانوں کو حج، عمرے اور زیارت کا موقع فراہم کرنا ہے۔ لاکھوں زائرین یہاں آتے ہیں اور انہیں عباد ت کی جگہ ملتی ہے۔ تاہم اس کے باوجود حج ، عمرے اور زیارت کا سفر ابھی تک پرمشقت بنا ہوا ہے۔ اس حوالے سے زائرین کو کم سے کم آزادی ملتی ہے۔ محدود ترین وقت میں دینی فرض ادا کرکے انہیں پہلی فرصت میں روانہ ہونا پڑتا ہے۔
کیا مذہبی سفر عصر حاضرمیں آسان، خوبصورت اور فرحت بخش ہوسکتا ہے؟ صاف الفاظ میں اسکا جواب نفی میں ہی دیا جائیگا۔ وجہ یہ ہے کہ اس قدر رش اور خدمات کی کمی کے ہوتے ہوئے انسان اپنے مذہبی سفر کو خوبصورت اور آسان نہیں بناسکتا۔ میں نے جدہ ایئرپورٹ پر جو کچھ دیکھا اسی طرح عمرے پر آنے والے آمد سے قبل روانگی کے وقت اور ٹرانسپورٹ اور رہائش کی بنیادی ضرورتوں کے حوالے سے جس مشقت سے گزرتے ہیں اس کے ہوتے ہوئے یہ سفر ایمان افروز نہیں ہوسکتا۔ یہ ایسا ذاتی تجربہ ہی رہیگا جس میں انسان کو نہ راحت ملتی ہے اور نہ ہی دوبارہ آمد کی حوصلہ افزائی۔ عبادت گاہیں بنادی گئیں۔ عبادت گزاروں کی ضرورتیں جوںکی توں برقراررہ گئیں۔ لاکھوں مسلمان آمد کے امیدوار رہتے ہیں تاہم حج اور عمرے کے ویزے حاصل کرنے والوں کی تعداد اس حوالے سے کافی کم رہتی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اپنے مقدس مذہبی مقامات کی زیارت کے خواب دیکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ حرم مکی محدود ہے بلکہ یہاں رہائش ، ٹرانسپورٹ ، قیام و طعام ، سیاحت اور شاپنگ کی سہولتیں دنیا کے کسی بھی علاقے میں جانے والے سیاح کی توقعات سے کم تر ہیں۔ گزشتہ 2برسو ںکے دوران زائرین کی تعداد میں 50فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کیا ان کی تعداد 7ملین سے 30ملین تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ یہ وہ چیلنج ہے جسے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی زیر قیادت نئی مکہ مکرمہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی پورا کریگی۔
مقامات مقدسہ کی زیارت کے امیدواروں کی تعداد صحیح معنوں میں اس وقت بڑھے گی جب انہیں اس بات کا احساس ہوگا کہ انکا یہ سفر دبئی یا پیرس جیسا لطف بخش ہوگا۔ محض تھکادینے والا دینی فر ض نہیں۔ امیدیں اس قدر ہیں کہ انہیں شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے دباﺅ بڑھ ہی رہا ہے۔ عمرہ ، حج کی طرح فرض نہیں ہے جب تک نوکر شاہی کا خاتمہ نہیں ہوگا ۔ ویزوں میں سہولتیں نہیں ہونگی۔ نجی شعبے کو سال بھر اپنی خدمات کا دائرہ وسیع اور بہتر بنانے پر آمادہ نہیں کیا جائیگا۔ تب تک بات نہیں بنے گی۔ کاش کہ منصوبہ بندی کے تصورات پر نظر ثانی ہو۔ کاش ترقیاتی عمل کا دائرہ مکہ کے مرکزی علاقے سے نکل کر مکہ کے اطراف تک پھیلے۔ آسان ٹرانسپورٹ کا بندوبست ہو۔ مقدس شہر کا مرکزی علاقہ محفوظ ، آرام دہ بنے۔ باصلاحیت سعودی نوجوان تار کئے جائیں۔ جو ہوٹلوں تعمیر کرنے اور خدمات فراہم کرن میں حصہ لیں۔ ہمیں پولیس سیکیورٹی ، شہری دفاع اور صحت خدمات کیلئے لشکر جرار کی ضرورت پڑیگی۔ ہر ماہ30 لاکھ زائرین کے استقبال کے لئے بہت کچھ کرنا پڑیگا۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: