Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خطے میں ایرانی اثر و نفوذ، بلبلہ پھٹنے والا ہے

 حسن علی القحطانی ۔ مکہ
ایرانی ملاﺅں نے اوبامہ انتظامیہ کےساتھ سیاسی اور سلامتی کی قربت کا پوری طرح سے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے برق رفتاری سے ایران کی دہشتگردی کا کھیل خو ب کھل کر کھیلا۔ انہوں نے پوری دنیا کو یہ تاثر دیا کہ وہ ہر جگہ ہیں اور ہر جگہ اپنی ایک شان اور اپنا ایک غلبہ رکھتے ہیں۔2014ءاور 2016ءکے درمیان ملاﺅں کے نظام کے نمائندوںکے بیانات سے غرور صاف جھلکتا رہا۔26مارچ 2015ءکو یمن میں آئینی حکومت کی بحالی کیلئے فیصلہ کن طوفان اچانک آیا تو ایرانی ملاﺅںکی بولتی بدلنے لگی۔ 
غرور کی کہانی پھر بھی چلتی رہی۔ 2016ءمیں غرور آمیز بیانات اپنی انتہا کو پہنچ گئے۔ روحانی کے مشیر نے چونکا دینے والا بیان دیا۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھاکہ ”بغداد نئی ایرانی شہنشاہیّت کا دارالحکومت ہے“۔ ایرانی بحریہ نے آبنائے ہرمز کے قریب امریکی جنگی جہاز یو ایس ایس نڈز کا راستہ روکا اور امریکی بحریہ کی2 کشتیو ںکو اپنے قبضے میں لیا۔
یہ علاقائی سرکشی اوبامہ انتظامیہ کی لاپروائی کا نتیجہ تھی۔ اوبامہ انتظامیہ نے بعض پڑوسی ممالک کے حساب پر ایرانی نظام کی لن ترانیوں سے آنکھیں موند لی تھیں۔ اسی وجہ سے ایرانی سرکش گھوڑے پر سوا رہوگئے تھے تاہم جس تیزی کیساتھ ایرانی غرور کے گھوڑے نے دوڑ لگائی تھی، اسی تیزی سے اسے زوال بھی حاصل ہوا۔ 2017ءمیں حالات بدلنے لگے۔ ایران کے مفادات کے برعکس تبدیلیاں آنے لگیں۔ عالمی سطح پر ٹرمپ امریکہ کے صدر بنے ۔ انہوں نے نئی امریکی حکومت تشکیل دی۔ سیاسی کھیل کے پتے تبدیل ہوگئے۔ ایرانی نظام کو ایسا تھپڑ لگا جس سے ایرانی کراہنے لگے۔ صدر ٹرمپ نے رواں سال8مئی کو ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کی جس پر ایرانی ٹامک ٹوئیاں مارنے لگے۔ امریکی وزارت خزانہ نے ایرانی نظام ، اسکی ملیشیاﺅں اور دہشتگرد گروہوں پر مکمل پابندیوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ غیر ملکی دیو ہیکل کمپنیو ںنے ایران سے رخت سفر باندھنا شروع کیا۔ اس سے ایرانی نظام میںزلزلہ آگیا۔ 30سے زیادہ کمپنیاں ایران چھوڑ چکی ہیں اور بڑے بینکوں نے امریکہ کی پابندیوں کے ڈر سے ایران کیساتھ لین دین بند کردیا ہے۔
جہاں تک ایران کے اندر کا معاملہ ہے تو 2017ءکے اختتام پر ایرانی عوام نے تحریک بیداری کا آغاز کرکے خمینی کی ریاست کے ستونوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ ایرانی اپوزیشن نے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں عظیم الشان کانفرنس منعقد کی۔ ایرانی مزاحمتی تحریک کی چیئرپرسن مریم رجوی نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ”یہاں ہم یہ بتانے کیلئے جمع ہوئے ہیںکہ ایرانی عوام دین کے نام پرقائم دہشتگردی کے حکمراں نظام کا دھڑن تختہ کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں۔ ایرانی عوام آزادی ، برابری اور جمہوریت کی بنیادوں پر نیا معاشرہ قائم کرناچاہتے ہیں “۔
30جون 2018ءہفتے کو ایرانی اپوزیشن کی نئی کانفرنس منعقد ہوئی ۔اس موقع پر ایران کے متعدد علاقو ںمیں سول نافرمانی کی تحریک کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ مریم رجوی نے پہلے جو بیان دیا تھا ،اس سے کہیں زیادہ سخت بیان نئی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ انہوں نے کہا کہ ” ملاﺅں کے نظام کو ادنیٰ تردد و تذبذب کے بغیر اکھاڑ پھینکنا ضروری ہوگیا ہے۔ہم ایران کے اندر مزاحمت کاروں کے ایک ہزار کیمپ قائم کرنے کےلئے کوشاں ہیں۔ ہم ایرانی شہرو ں میں ولایت فقیہ نظام کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کیلئے انتفاضہ کے گڑھ تیار کریں گے“۔
علاقائی سطح پر عرب اتحاد کی افواج یمن کو آزاد کرانے کی منزل کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کی بیخ کنی کا وقت قریب آچکا ہے۔ بغداد میں نئے انتخابات نے ایرانی تسلط کے مخالف قومی محاذ کی اہمیت اجاگر کردی ہے۔ دمشق میں ایران کے خلاف علاقائی و بین الاقوامی منظر نامہ تبدیل ہونے لگا ہے۔ بیرو ت میں حزب الشیطان دہشتگرد تنظیموں کے پنجرے میں بند کردی گئی ہے۔ علاقائی ، بین الاقوامی اور مقامی دباﺅ کے باعث ایرانی ریال کی قدر بہت زیادہ گر چکی ہے۔ ایک ڈالر کے بدلے 50ہزار ایرانی ریال ملنے لگے ہیں۔ آخری بات یہ ہے کہ ایران کا من گھڑت رتبہ عالمی سیاست کی انارکی کا نتیجہ تھا۔ صورتحال تبدیل ہونے پر ایران کو اس کا حدودِ اربعہ بتا دیا گیا ہے۔ اب ایرانی عوام کے ہاتھوں دہشتگردی پھیلانے والا نظام تباہی کے کنارے پہنچ چکا ہے۔ ایرانی بھوک اور فاقے سے کراہ رہے ہیں۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: