Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریاض میں متوقع سربراہ کانفرنس اور نئے عالمی نظام کی تشکیل

متوقع سربراہی اجلاس جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان ہوگا، سعودی عرب میں جاری مذاکرات کے نتائج پر منحصر ہے۔
 کیا یہ اجلاس ایک نئی ’یالٹا‘ کانفرنس ثابت ہوگا جو ایک نیا عالمی نظام تشکیل دے گا یا یہ کیوبا میزائل بحران کے مذاکرات جیسا ہوگا جو یورپی، روسی، امریکی جنگ اور اس کے جوہری خطرات کو ختم کر دے گا؟
مخالفین کے اعتراضات کے باوجود دونوں وفود کے اعلیٰ عہدیدار تاریخی قصر الدرعیہ میں ریاض میں ملاقات کر چکے ہیں۔
 روس اور امریکہ کے درمیان تعلقات جو یوکرین پر روسی حملے کے بعد شدید کشیدہ ہو چکے ہیں، پر مذاکرات کے لیے تکنیکی ٹیمیں اپنے کام میں مصروف ہیں۔
سعودی عرب کو اجلاس کے مقام کے طور پر منتخب کرنا دلچسپی اور کچھ حد تک تشویش کا باعث بنا۔ اس کی بنیادی وجہ ایک ایسی سرزمین کی تلاش تھی جو دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہو۔
 اس فیصلے کے پیچھے سعودی ولی عہد کی امریکی اور روسی قیادت کے ساتھ اچھے تعلقات کارفرما ہیں جس نے مذاکرات کے آغاز کو ممکن بنایا۔


 ’اگر سربراہی اجلاس کامیاب ہوتا ہے تو یہ بڑے عالمی تنازعات کو کم کر سکتا ہے‘ ( فوٹو: العربیہ)

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد ان کے ساتھ ایک مضبوط اور با اعتماد تعلق قائم کیا اور ساتھ ہی روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ بھی تعلقات بے مثال سطح پر پہنچے۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ روس اور امریکہ گزشتہ تین سالوں سے یوکرین میں ایک غیر رسمی جنگ میں ملوث ہیں جو کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغرب اور ماسکو کے درمیان پہلی بڑی جنگی صورتحال ہے۔
یہ سربراہی اجلاس، جو انتہائی سنجیدگی سے تیار کیا جا رہا ہے، عالمی طاقتوں، بشمول یورپ اور چین کی جانب سے گہری نگرانی میں ہے۔
 اس اجلاس کا مقصد بنیادی مسئلے کو حل کرنا ہے، یعنی ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کو منظم کرنا۔ اگرچہ یوکرین بھی اس میں شامل ہے مگر یہ اجلاس صرف یوکرین کے لیے مخصوص نہیں بلکہ بین الاقوامی مسابقت اور نئی سیاسی و اقتصادی صف بندیوں پر بھی مرکوز ہوگا۔
آخری عالمی نظام کی تشکیل کرنے والی کانفرنس 1945 میں یالٹا میں منعقد ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ، جرمنی کی تقسیم اور ماسکو کے ایک طاقتور بلاک کے طور پر ابھرنے جیسے اثرات سامنے آئے تھے۔
1962میں کیوبا میزائل بحران کے دوران ہونے والی سربراہی ملاقات نے اس وقت کے سنگین تنازعے کو ختم کیا، جب ماسکو نے کیوبا سے اپنے جوہری میزائل ہٹا لیےاور امریکہ نے کیوبا پر حملہ نہ کرنے اور بعد میں ترکی سے اپنے میزائل واپس لینے کا عہد کیا۔
سعودی عرب میں ہونے والی روس،امریکہ سربراہی ملاقات سے عالمی سطح پر امیدیں اور خدشات وابستہ ہیں۔ ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اپنی آمد کے بعد سے امریکی پالیسی کے لیے ایک مختلف راستہ اختیار کیا ہے اور دوسری طرف روس نے یوکرین میں اپنی جنگی پیشرفت جاری رکھی ہے اور شمالی کوریا اور ایران جیسے نئے اتحادی حاصل کیے ہیں جبکہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات مزید مستحکم کیے ہیں۔
یورپی ممالک جو واشنگٹن کے ساتھ اپنے تاریخی تعلقات میں ممکنہ تبدیلیوں کا سامنا کر رہے ہیں، اس اجلاس کو محتاط نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔

’روس اور امریکہ، یوکرین میں غیر رسمی جنگ میں ملوث ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بڑی جنگی صورتحال ہے‘ ( فوٹو: سبق)

 اسی لیے فرانسیسی صدر نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے رابطہ کیا اور کئی یورپی دارالحکومتوں نے اس اجلاس کے ممکنہ موضوعات پر اپنی آرا کا اظہار کیا۔
چین، جس کی جانب سے ابھی تک کوئی باضابطہ سیاسی بیان نہیں آیا، واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان اس نئے سفارتی اقدام کے نتائج پر خاصی توجہ دے گا۔ خاص طور پر جب ٹرمپ نے چینی صدر شی جن پنگ کو ایک نئی اقتصادی و سیاسی ڈیل پر بات چیت کی دعوت دی مگر ساتھ ہی امریکی منڈی میں چینی برآمدات پر اضافی ٹیرف اور پابندیاں لگانے کا بھی اعلان کیا۔
ٹرمپ اور پوٹن کے درمیان سعودی عرب میں ہونے والا یہ اجلاس کیا معنی رکھتا ہے؟ عالمی طاقتوں کے تعلقات میں بہتری کے علاوہ، مشرق وسطیٰ ان خطوں میں شامل ہے جہاں بین الاقوامی مداخلت اور تنازعات شدت سے جاری ہیں۔
 اگر یہ سربراہی اجلاس کامیاب ہوتا ہے تو یہ نہ صرف بڑے عالمی تنازعات کو کم کر سکتا ہے بلکہ شاید یورپی جنگ کے خاتمے کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔
(بشکریہ: الشرق الأوسط)

شیئر: