حج و عمرہ کے خدمت گاروں کا باصلاحیت ہونا ضروری
عبداللہ محمد الشہرانی ۔ مکہ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے مبارک سرزمین کو حرمین شریفین کی خدمت کا اعزاز بخشا ہے۔ یہ قابل فخر و ناز اعزاز ہے۔ سعودی عرب کا ہر شہری اسے اپنے لئے انمول نعمت سمجھتا ہے۔ عام شہری سے لیکر مملکت کے قائد اعلیٰ تک حرمین شریفین کی خدمت کو اپنے لئے سعادت کا انمول سرمایہ مانتے ہیں۔
دنیا بھر سے فرزندان اسلام عمرہ اور حج کیلئے ارض مقدس آتے ہیں۔ یہاں وہ مقررہ ایام میں فریضہ حج کی سعادت حاصل کرنے پہنچتے ہیں۔ یہاں آکر وہ صرف اور صرف اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔ حج کے ایام اور رمضان المبارک کے شب و روز دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان مواقع پر ارض مقدس میں اتنی تعداد میں لوگ آتے ہیں کہ وہ کئی ممالک کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہوتے ہیں۔یہ سب لوگ مسجد الحرام ، میدان عرفہ، مزدلفہ اور منیٰ میں بیک وقت جمع ہوتے ہیں۔
معتمرین اور حجاج کی بھاری بھرکم تعداد مشکل حالات ، محدود رقبہ جات اور مقررہ وقت کے اندر سب کی حاضری بہت بڑا چیلنج ہے۔ موسم بھی سخت ہوتا ہے۔ بعض حاجی اورمعتمر آگہی اور بیداری سے محروم ہوتے ہیں۔ کئی کے یہاں آگہی معمولی درجے کی ہوتی ہے۔ یہ تمام حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ حجاج اور معتمرین کو مختلف خدمات پیش کرنے والی کمپنیوں ، سعودی عرب کے شہری و عسکری ریاستی اداروں کے اہلکار انتہائی باصلاحیت ہوں، پیشہ ور ہوں۔ اسی قسم کے باصلاحیت افراد اور مسلسل تجربات رکھنے والے لوگ وزارت یا کمپنی کی ٹیم کے حقیقی کھلاڑی ہوتے ہیں۔ ان سے بے نیازی نہیں برتی جاسکتی۔اس حوالے سے بہت سارے لوگ شہرت کمائے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر محکمہ ٹریفک کا فلاں افسر اور جدہ ایئر پورٹ کے حج ٹرمینل کا فلاں عہدیدار اور بلدیہ کا انجینیئر اور محکمہ صحت کا فلاں طبیب، وزارت حج کا فلاں معلم اور گورنریٹ کے فلاں عہدیدار حجاج اور معتمرین کی خدمت میں اپنی آنکھیں بچھائے رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اخلاص اور مطلوبہ خدمات میں پیشہ وارانہ روح سے کام لیکر اچھی شہرت کمائی ہے۔یہ لوگ اپنے شعبے ہی تک نہیں بلکہ حج و عمرہ موسم میں کام کرنیوالے تمام اداروں میں نام کماچکے ہیں۔
بیشتر معروف سعودی ماہرین حج و عمرہ موسم کے دوران پے درپے تجربات کا نچوڑ ہیں۔ ہم ان لوگوں کی صلاحیت کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔ ہم ان کے یہاں پیشہ ورانہ ہنر کا معیار بلند کرسکتے ہیں۔ اس کیلئے ہمیں مختلف طور طریقے اپنانے ہونگے۔ انہیں بین الاقوامی تقریبات ، نمائشوں، مسابقہ جات، کانفرنسوں اور تقریبات میں شریک کرکے ان کی صلاحیتوں کو نکھارا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ سعودی عرب کے سیاسی تعلقات ہیں ۔ان تعلقات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ مثلاً جاپانی حکومت سے یہ درخواست کیوں نہ کی جائے کہ وہ 2020کے دوران ٹوکیومیں ہونیوالے اولمپک کھیلوں کے نظم و ضبط کیلئے بعض سعودی نوجوانوں کی خدمات حاصل کرے۔ اسی طرح دبئی 2020ءمیں بین الاقوامی نمائش منعقد کرنے جارہا ہے۔ کیوں نہ ہم وہاں سعودی نوجوانوں کا ایک گروپ بھیجیں۔ علاوہ ازیں اس قسم کی عالمی تقریبات منعقد کرنے والے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کے بل پر سعودی نوجوانوں کو حوصلہ دینے کا بندوبست کیوں نہ کریں؟ میں سمجھتا ہوں کہ اگریہ سب کچھ کیا گیا تو اس کے دور رس نتائج مرتب ہونگے۔ ہمارے یہاں بڑے بڑے اجتماعات کا اہتمام کرنے والے ماہرین تیار ہونگے۔ آگے چل کر یہ لوگ غیر معمولی اجتماعات کے نظم و ضبط کے سلسلے میں سینٹر کے بانی بن سکتے ہیں۔ یہ سینٹر سعودی عرب کی ترقی کا آئینہ دار ہوگا ۔یہ سینٹر پوری دنیا کو خدمات پیش کرسکے گا۔ اس خیال کی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے 2شرطیں پوری کرنی ہوگی۔ پہلی شرط یہ ہے کہ ہر شعبے سے ناموں کا انتخاب انتہائی باریک بینی سے کیاجائے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ عالمی تقریبات کیلئے نامزد افراد تقریبات میں شرکت پر اکتفا نہ کریں بلکہ تقریبات کو منظم کرنے اور وہاں کے نظم و ضبط سے کچھ سیکھنے ، کچھ حاصل کرنے اور سیکھے ہوئے اسباق کو اپنے یہاں نافذ کرنے کا بھی اہتمام کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭