سعودی عرب اور مغرب کا تمدن
محمد السعیدی ۔ الوطن
1344ھ کے دوران سعودی عرب کا پراگندہ شیرازہ جمع ہوا۔ مختلف ریاستوں میں منتشر علاقے مملکت حجاز و نجد و متعلقات کے سائبان تلے جمع ہوگئے۔17جمادی الاول 1351ھ کو پورا ملک ”مملکت سعودی عرب “ کے نام سے متعارف ہوا۔ بانی مملکت شاہ عبدالعزیز نے 12جمادی الاول 1351ھ کو مکہ جدہ اور طائف کے عمائدین کے ساتھ ملاقات کے بعد ریاست کے نئے نام کا شاہی فرمان جاری کیا تھا۔
شاہ عبدالعزیزرحمتہ اللہ علیہ نے اس کارنامے کی راہ میں مغربی ممالک کی اشتعال انگیزیوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ انہوں نے اپنے دین اور اس کے اصولوں سے دستبرداری کا کوئی سودا نہیں کیا۔ وہ 1319ھ سے ریاست کی تاسیس کے مرحلے میں مذہب اسلام اور اس کے اصولوں ہی کا دفاع کرتے رہے تھے۔سعودی عرب کے بہت سارے مخالفین نے ماضی میں بھی ایک کوشش کی تھی اور حالیہ ایام میں بھی اس کا علم بلند کئے ہوئے ہیں اور وہ یہ کہ بانی مملکت نے جو کچھ لیا وہ برطانیہ کے آگے گھٹنے ٹیک کر لیا۔ دعویدار اس کا جواز یہ پیش کرتے ہیںکہ شاہ عبدالعزیز نے استعماری طاقت کو متعدد سہولتیں مہیا کیں اور اسکے کہنے پر کئی فیصلوں سے پسپائی بھی اختیار کی۔ اس قسم کے دعوے کرنے والے نہ کل اپنے اس دعوے کے حق میں کوئی ثبوت پیش کرسکے تھے اور نہ ہی آج ان کے پاس اپنے دعوے کے حق میں کوئی دستاویز ہے۔ یہ لوگ اپنی جھینپ مٹانے کیلئے لے دے کر دلیل کے طور پر یہ بات کہنے لگے ہیں کہ شاہ عبدالعزیز نے 15-4-1337ھ کو پیرس امن کانفرنس میں شرکت کیلئے اپنے بیٹے فیصل کو بھیجا تھا۔ اس موقع پر شاہی مندوب فیصل نے صہیونی تنظیم کے سربراہ حائم وائزمین کیساتھ معاہدہ کرکے فلسطین سے دستبرداری دی تھی۔ یہ لوگ شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز اور اس وقت کے شہزادہ فیصل بن الحسین کے ناموں کی مماثلت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس قسم کی باتیں کررہے ہیں۔ فیصل بن الحسین ہی پیرس امن کانفرنس میں اپنے والد کے نمائندے کے طور پر شریک ہوئے تھے۔ اس وقت لی گئی تمام تصاویر اور دستاویزات اسی کی شاید ہیں۔ مملکت کے مخالفین نے یہ بدگمانی پھیلانے کی بھی کوشش کی کہ سعودی عرب ”سائیکس بیکو“ معاہدے کی پیداوار ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس معاہدے کا سعودی عرب کی تاریخ سے کوئی رشتہ نہیں۔ یہ معاہدہ شام اور ایران کی تقسیم کی بابت فرانس اور برطانیہ کے درمیان ہوا تھا۔ اس معاہدے کی ایک بھی دفعہ یا کسی ایک دفعہ کی ایک بھی شق میں شاہ عبدالعزیز کے ماتحت علاقوں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔شاہ عبدالعزیز نے اپنے وطن کا نقشہ اپنی اور فرزندان وطن کی کاوشوں کے بل پر مرتسم کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ نے سائیکس بیکو معاہدے کے 8برس بعد سعودی عرب کےساتھ اپنی کالونیوں کویت اور عراق کی سرحدوں کے معاملے پر براہ راست مذاکرات کئے تھے۔ شاہ عبدالعزیز نے اس موقع پر مد مقابل کی حیثیت سے حصہ لیا تھا۔ انہوں نے برطانیہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ دریائے فرات کا مغربی ساحل، حلب اور دریائے العاصی سعودی عرب کے حوالے کرے۔ فریقین کے درمیان 7دن تک زبردست بحث چلتی رہی۔ آخر میں جو سمجھوتہ طے پایا وہ لگ بھگ وہی تھا جس کا مطالبہ شاہ عبدالعزیزکررہے تھے۔
شاہ عبدالعزیز نے اپنے علاقوں کو کسی بھی استعماری طاقت کے قبضے میں جانے یا اسکی قانونی نگرانی سے بچانے کا ہدف پورا کیا۔ انہوں نے وسیع و عریض علاقوں پر مشتمل نئی ریاست کے قیام کا خواب پورا کیا۔ انہوں نے خلیج اور سمندر کے درمیان پھیلے ہوئے علاقوں میں موجود بہت ساری ریاستوںکو ایک پرچم تلے جمع کیا۔ یہاں قدیم زمانے سے متحدہ ریاست کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ پہلی بار شاہ عبدالعزیزکے دور میں یہ کارنامہ رونما ہوا۔
نفرت کا پرچارکرنے والے عجیب لنگڑے لولے الزاما ت میں سے ایک الزام یہ لگا رہے ہیںکہ مملکت کے قیام میں برطانیہ کا ہاتھ تھا۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ جزیرہ عرب کا پراگندہ شیرازہ جمع ہونے میں برطانیہ کاکیا مفاد ہوسکتا تھا؟ اتحاد سے قبل یہاں کے شیوخ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ اس حوالے سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ تیل کے تمام سرچشمے ایک ریاست کے کنٹرول میں آجائیں اس سے برطانیہ کو کیا ملنے والا ہے۔ مسلمانوں کے قبلے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دارالھجرہ کا ایک پرچم تلے جمع ہونے سے برطانیہ کو کیا مل رہا تھا۔ ایسی ریاست کا قیام جس کے پرچم پر کلمہ توحید تحریر ہو اور جو اسلام اور مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کی علامت ہو اس میں برطانیہ کا کیا مفاد تھا۔ جب نفرت کا پرچار کرنے والوں سے اس طرح کے سوالات کئے جاتے ہیں تو وہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔
٭٭٭٭(جاری ہے)٭٭٭٭