جب سے سابق ہندوستانی کرکٹر اور وزیراعظم عمران خان کے دوست نوجوت سنگھ سدھو نے پاکستان کا دورہ کیا ہے ۔ ہندو انتہا پسند ان کے خلاف مسلسل ہذیان بک رہے ہیں۔سماجی ویب سائٹس پر بھی انکے خلاف ناراضی کا طوفان ہے۔ کئی ٹوئٹس ان کے حق میں بھی ہیں۔
ارون میسور لکھتے ہیں کہ کیا ان فوجیوں ے خلاف بھی بغاوت کے مقدمات درج ہونگے جو ہر سال واہگہ کی سرحد پر پاکستانی فوجیوں سے گلے ملتے ہیں۔
عمران حسن لکھتے ہیں کہ ہندوستانی دوستوں کی طرف سے سدھو کے خلاف ٹویٹس اور تبصرے دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ یہ 2018ءہے، 1980کا عشرہ نہیں۔ کیا ہمیں آگے جانے کی ضرورت نہیں؟براہ کرام امن کو بھی ایک موقع دیں۔
ایم این خان کہتے ہیں کہ میرا تعلق لاہور سے ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کے خاندان کی جڑیں بھی لاہور میں تھیں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ یقینا امن کے سفیر ہیں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
مونا عالم ٹویٹ کرتی ہیں کہ کیا آپ کو علم ہے کہ بجرنگ دل جس نے سدھو کے سر کی قیمت 5لاکھ روپے رکھی ہے ، دہشتگرد تنظیم ہے اور سی آئی اے اور امریکی انٹیلی جنس نے اسکا باقاعدہ اعلان کررکھا ہے۔
اویس لکھتے ہیں کہ کسی ایسے ہندوستانی کو ِآپ کیسے غدار کہہ سکتے ہیں جو پاکستان سے محبت اور امن چاہتا ہو۔ شاہد آفریدی نے کیرلہ کے سیلاب زدگان کیلئے ہمدردی کا اظہار کیا کسی ایک پاکستانی نے بھی انہیں غدار نہیں کہاجو صحیح بات ہے۔
صفا لکھتی ہیں کہ جب نواز شریف ہندوستانی وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں گئے تو سب ٹھیک تھا لیکن جب ایک ہندوستانی کرکٹر حلف برداری کی تقریب میں پاکستان گیا تو غلط ہوگیا۔ واہ رے میڈیا واہ۔