”بر سو ں یہا ں رہے ہیں،یہ اپنا نہیں ہوا“
تسنیم امجد۔ریا ض
جمہو ریت وہ نظام ہے جس میں اقتدار ِ اعلیٰ نہ سلا طین کو حا صل ہو اور نہ امرا ءکے طبقے کو ۔عوام خود اپنے اوپرحکومت کے مجاز ہوں۔دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر دیکھ کر افسوس ہوا اور بے ا ختیار علامہ اقبال کے ا شعار یاد آ ئے :
افسوس صد افسوس کہ شا ہیںنہ بنا تو
دیکھے نہ تری آ نکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قا ضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفا جات
ہم اےسے نو جوا نو ں کو کیا قوم کا مستقبل کہہ سکتے ہیں؟ انہیں ا حساس ہی نہیں کہ ان کے اپنے گھر سے با ہر کاعلاقہ بھی ان کے اپنے وطن کا ہی حصہ ہے۔ یہ گندگی، ما حول کو گندہ کرے گی۔ اس طر ح ہوا میں شامل ہو کر خود ان کے اپنے گھر میں ہی وا پس پہنچ جا ئے گی ۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کی بہتری کے اقدامات حکومتِ وقت کی اولین ذمہ داری ہے ۔بنیادی سہو لتوں میں صاف ما حول کو اولیں حیثیت حاصل ہے لیکن بد قسمتی سے اس پر کو ئی تو جہ نہیں دی جاتی ۔صاف ما حول سے انسان خواہ غریب ہی کیو ں نہ ہو ،خود کو محسوس کرتا ہے کہ اس کا کوئی والی وارث تو ہے ۔ افسوس تو یہ ہے کہ ان کی تر بیت میں ہی کچھ نہ کچھ جھو ل ضرور ہے ۔گھر کے ما حول میں ہی اس کی شخصیت اس انداز میں نہیں پنپی جو معا شرے کے لئے مفید ہو ۔
معا شرے کی اکا ئی گھر ہے جہا ں انسان کی تر بیت ہو تی ہے جو انسان کے افعال اور سوچ پر ا ثر انداز ہو تی ہے ۔گھر کے ما حول میں ہی جو نسلیں پر وان چڑ ھتی ہیں وہ دنیا کو مسخر کرتی ہیں ۔یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اہالیانِ وطن مسائل جھیل رہے ہیں اور اپنے بنیادی مسائل سے کنا رہ کشی ا ختیار کئے ہو ئے ہیںجبکہ ایسا نہیں ہو نا چا ہئے ۔صا حبانِ اختیار پا نا مہ پا نا مہ جھیلتے ڈوب تو گئے لیکن قوم کے شعور کو بھی گہری نیند سلانے میں کا میاب ہو گئے ۔گندگی اور غلا ظت یہ ا حساس دلا رہی ہے کہ :
ایسا سفر ہے جس میں کو ئی ہمسفر نہیں
رستہ ہے اس طرح کا جو دیکھا نہیں ہوا
مشکل ہوا ہے رہنا ہمیں اس دیار میں
بر سو ں یہا ں رہے ہیں،یہ اپنا نہیں ہوا
عروس ا لبلاد یعنی منی پا کستان جس کی آ بادی دو کروڑ کو چھوچکی ہے ، کبھی دلہن کی طرح تھا لیکن اب اس کا رنگ روپ گہناچکا ہے۔ اس کی ذمہ دار یہ رنگ بد لتی حکو متیں ہیںبلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ سسرال کے مظالم بھی ان کے سامنے کو ئی حقیقت نہیں رکھتے۔ کچرے اور غلا ظت نے حسن کو گہنانے کے ساتھ ساتھ عوام کا جینا بھی مشکل کر رکھا ہے ۔اس پر لاپروائی نے سو نے پہ سہا گے کا کام کیا ۔
آج ہم اپنے ما ضی پر فخرکرتے ہیں اور حال پر شر مندہ ہیں۔ہماری تہذہب وہ ہے جس سے دو سروںنے سلیقہ سیکھا ۔ہم تہذیب و تمدن کے دا عی ہیں۔دوسری اقوام نے اوج ثریا کو چھونے کا وتیرہ ہم سے مستعار لیا اور ہمارے لئے ہی مثال بن گئیں۔صفائی ستھرائی ازل سے ہمارا طرہ امتیاز ہے مگر اسے اغیار نے اپنایا ۔غربت زدہ ما حول کے با سیو ں کو کیا معلوم کہ آ داب زندگی کیا ہیں ؟سچ تو یہ ہے کہ آ ج تک سیاست ہی اوڑھنا بچھونا رہا ہے اس لئے حقیقت کی دنیا میں جھا نکنے کا کسی کو وقت ہی نہیں ملا ۔اسی میں توا نا ئیا ں ضا ئع ہو تی رہیں ۔اقتدار ہی مقصد حیات رہ گیا تھا ۔
کاش اب تبدیلی کا نعرہ لگا نے والے اس ذہنی تناﺅ اور کشا کشی کا جلدتدا رک کرنے کے قابل ہوسکےں۔فضا تو پہلے ہی گا ڑ یو ں اور فیکٹر یو ں کے دھو ﺅ ں سے آ لودہ ہے جس سے اور امراض کے ساتھ ساتھ دمہ بھی زیا دہ پھیل رہا ہے ۔قومی اور مقامی حکو متیں بھی اپنے فرا ئض کا ا حترام نہیں کرتیں جبکہ ان کی حیثیت گا ڑی کے پا نچویں ٹا ئر یعنی ”ا سٹپنی“کی سی ہے ۔شہرِ کراچی کا حسن آج اپنو ں سے چیخ چیخ کر سوال کر رہا ہے کہ ” میرے ما ضی کی ر فعتیں کہاں کر دیں ؟
یہا ں یہ بھی بتا تے چلیں کہ شہرِ کرا چی کے بہت سے علا قو ں کو ہم جا نتے بھی نہیں ۔آ ج اس نئی جگہ کے نئے نام کو ہم نے ”گو گلایا“ تو اس کی قدامت کا جان کر حیرت ہو ئی ۔اسے تو اپنی روا یات کا سا مقام ملنا چا ہئے تھا ۔ ”تین ہٹی“یعنی شہر کا آ خری کو نہ تین دکانو ں سے منسوب ۔پھر 78 نمبر بس کا وہا ں سے چلنا ،سبھی کچھ دلچسپ تھا ۔ اس علاقے کوزیادہ سے زیادہ آ باد کرنے میں پاکستان کے سب سے پہلے و ز یرِ ا عظم لیا قت علی خان کی دلچسپی ۔ذرا سو چئے جب اس کے سا تھ یتیمو ں سے بھی بد تر سلوک کیا گیا تو وہا ں کے با سیو ں کو زندگی گزارنے کا سلیقہ کہا ں سے آ تا ؟
ا صولی طور پر جمہو ریت عوام دوست ہو تی ہے ۔حکو متی پا لیسیا ں بنا تے ہو ئے عوام کی بہبود کا خیال رکھا جا تا ہے لیکن افسوس ہم صرف اشرا فیہ کے تحفظ اور ان کے مفاد کو تر جیح دیتے رہے اور عوام کو خا طر ہی میں نہیں لا ئے ۔ہمارے نز دیک بالا طبقے کی زند گیو ں کو ہی ہر قسم کی آ سا ئش کہ ضرورت ہے ۔عوام نے آ زادی کی تحریک میں اپنی جا نو ں کے نذ را نے پیش کئے ۔لہو کی نہریں بہا ئیں لیکن وہی بے چارے مصا ئب سے دو چار ہیں۔کراچی ہی کے علاقے اورنگی ٹاﺅن کے بارے میں سنا کہ وہا ںکے با سیو ں نے اپنی مدد آ پ کے تحت ” اورنگی پا ئلٹ پرا جیکٹ“شروع کیا ۔ لو گو ں نے اپنے گھروں کے با ہر گندے پا نی کے نکاس کے لئے نا لیا ں خود بنا ئیں۔اس کے علاوہ علاقے کی صفا ئی و ستھرائی کے لئے مزید اقدامات بھی کئے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ صاف ما حول ترقی کی جانب گا مزن ہو نے کے لئے کیو ں ضروری ہے ۔
نسلِ نو کتابو ں میں کچھ اور پڑ ھتی ہے اور عمل کچھ اور دیکھتی ہے تو کشمکش کا شکار ہو جاتی ہے ۔تعلیمی اداروں کے با ہر خا ص کر یہ تضادان کی شخصیت کو مسخ کر نے کے لئے کا فی ہے ۔پھر وہ دیکھتے ہیں کہ کسی کر تا دھرتا کے لئے تو سڑ کو ں اور چہار دیواری کو ما نجھ کھرچ کر چمکایا جا رہا ہے لیکن ان کے لئے ؟ یہ سوالیہ نشان انہیں بے چین کرتا ہے ۔نتیجے کے طور پر وہ تخر یب پہ اتر آ تے ہیں ۔
ایک طا لب علم سے حال ہی میں بات ہو ئی تو کہنے لگا کہ ہم بہت بے چین ہو جاتے ہیں جب ہم اس تضاد کو دیکھتے ہیں ۔ان بڑے لو گو ں کے را ستے میں ایمبو لینس بھی آ جائے تو اسے مریض کی جان کی پر وا کئے بغیر سگنل پر روک دیا جاتا ہے ۔خواہ بے چارا مریض مرہی کیوں نہ جائے ۔ہم نے ایک دن ڈرائیورسے سوال کیا کہ انہیں اس کا خیال نہیں آتا کہ کس قسم کے مریض کو لے کر جا رہے ہیں۔اس پر آپ گا ڑی نہ روکیں ۔وہ بو لا ہماری کیا مجال کہ ہم کچھ بو لیں ۔ہمارے چھو ٹے چھو ٹے بچے ہیں ۔یہ تو ہمیں کھڑے کھڑے نکال دیں گے ۔سب سمجھتے ہیں جناب ۔بہت ہی بے بسی ہے ۔ایک خاتون کا کہنا ہے کہ میرا گھر نز دیک ہی ہے اور مجھے اپنے بیٹے کو خود ہی چھو ڑنا ہو تا ہے وہیل چیئر پر ۔بس کچھ نہ پو چھئے کہ کن حالات سے گزرتی ہو ں ۔روزانہ دو نو ں وقت اپنے کپڑے اور جوتے دھو تی ہو ں۔ وا پسی پر چیئر کے پہئے بھی دھونے پڑ تے ہیں۔ والدین بے چارے مجبو ری میں آ نکھیں بند کر کے جئے جاتے ہیں ۔شکا یت کریں تو کس سے کر یں ؟ یہاں ایک انگریزی کہاوت کی بات کریں گے کہ ” ہم سب اپنے ما حول کی پیداوار ہیں“ما حول اور شخصیت کے با ہمی انحصار سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔نو جوا نو ں کا کہنا ہے کہ ہم نے اسی ما حول میں آ نکھ کھو لی ۔رو ٹی کی فکر کے سوا ہمارے والدین کو کچھ خبر نہ تھی ۔نہ جانے کیسے ہمیں اسکول بھیجا اور ا خرا جات برداشت کئے ۔حقوق کے لئے کس سے التجا کریں ۔آج کے بچے کل کے نگہبانِ وطن ہیں ۔قوم کی ان کیا ریو ں کو پھلنے پھو لنے کے لئے بہترین کھاد چا ہئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اب ہمارے گھرو ں کے حالات ویسے نہیں رہے ۔والدین ماضی کی طر ح بچو ں پر توجہ بھی نہیں دیتے ۔ہمارے اذ ہان میں معا شرتی بہبود کا خانہ خالی ہو گیا ہے ۔ہم نے منا فقت سے کام لینا شروع کر دیا ہے ۔ٹال مٹول سے جان چھڑا لیتے ہیں یعنی حیلے بہانے بنانے میں ما ہر ہیں ۔قناعت بھو ل چکے ہیں ۔تبدیلی کے خوا ہا ں ہیں لیکن یہ نہیں مانتے کہ اس کے لئے ہمیں پہلے خود کو بدلنا ہے ۔ وقت محا سبے کا متقا ضی ہے ۔ہم نعرے تو بہت لگاتے ہیںلیکن عمل کچھ بھی نہیں ۔کیا خوب کہا گیا ہے کہ:
لمحہ بھر کو تو لبھا جاتے ہیںنعرے لیکن
ہم توسب اہلِ وطن دردِ وطن ما نگتے ہیں
اس گندگی کے بعد مچھروں کی یلغار سے نمٹنا بھی کو ئی آ سان نہیں۔ڈینگی مچھروں سے بھی ڈر نہیں لگتا ۔خوفِ خدا ہی نہیں رہا ۔عوام بے چارے نہ جانے کس جرم کی سزا بھگت رہے ہیں ۔جمہو ریت کے نام پر ملنے والی آزادی کا ہمیں ا حساس ہی نہیں کہ اس کا جا ئز استعمال کیا جا ئے ۔”روک و توا زن “کا نظام با لکل مفقود ہو چکا ہے ۔جمہوری مما لک میں عوام میں اہلیت ہو نی چا ہئے کہ وہ عقل و شعور سے اپنے ووٹ کا استعمال کریں ۔اس کے لئے تعلیم چا ہئے مگراس پر توجہ نہیں دی جا رہی ۔وطن میں ہر صوبے کی تعلیمی شرح اس کی نصف آ بادی سے بھی کم ہے ۔اب آپ خود ہی اندازہ لگا ئیں کہ ملک کی کل آ بادی کی تعلیمی شر ح کیا ہو گی ۔جب عوام میں شعور ہی نہیں ہو گا تو وہ اپنے منتخب ہونے والے نما ئندے کو کیسے پہچان سکیں گے ۔اس کے جھو ٹے وعدو ں پر وہ آسانی سے بھروسہ کر بیٹھیں گے ۔
افسوس ہماری حکومتیں اس سے لا پروا ہیں ۔انہیں تو ایسے ہی عوام چا ہئیں جو نا سمجھ ہوں ۔یہی وجہ غربت کی بھی ہے ۔آبادی کی کثیر تعداد بھوک کے ہا تھو ں مجبور ہے اسی لئے جو سیا سی جما عت ان کو پیٹ بھر کر رو ٹی دیتی ہے وہ اس کے گرویدہ ہو جا تے ہیں۔تیسری دنیا کے با سی ہو کر،غلامی کی زندگی گزار کر بھی ہم ذہنی طور پر وہیں کھڑے ہیں۔ہم پہلے غیروں کے غلام تھے ،اب اپنے نفس کے غلام ہیں۔آ زادی کی حقیقت کو ہم آ ج تک پہچا نے ہی نہیں ۔اس نعمت کی قدر ان سے پو چھیں جو آ زادی کے لئے تڑپ رہے ہیں ۔آج وقت ہم سے ا حتساب کا متقا ضی ہے۔ہمیں اپنی زندگیو ں کی رکھوالی خود ہی کرنی ہے ورنہ بیما ریاں اور نا قص طبی سہو لتیں سو چو ں کو مصا ئب کے بھنور سے نکلنے نہیں دیں گی ۔سما ج دشمن یہی تو چا ہتے ہیں ۔درحقیقت ہمیںاپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہو گا ۔