بادشاہ بننے سے قبل شاہ سلمان کی زندگی کے انوکھے واقعات
جمعرات 20 ستمبر 2018 3:00
یوم الوطنی کی مناسبت سے خصوصی تحریر
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزسعودی عرب کے حکمراں بننے سے قبل وزیر دفاع و ولی عہد اور نصف صدی سے زیادہ عرصے تک دارالحکومت ریاض کے گورنر رہے۔ اس دوران انکے سا تھ کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن کے دستاویزی ثبوت سعودی عوام اور محبان سلمان کی دلچسپی سے خالی نہیں۔
رکن شوریٰ و سابق سیکریٹری تعلیم و تربیت ڈاکٹر عبدالعزیز بن عبدالرحمن الثنیان نے الحیاۃ اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے بھولی بسری یادیں ریکارڈ کرائیں۔
انہوں نے بتایا کہ شاہ سلمان کے ساتھ میرا تعلق بڑا طویل اور عمیق ہے۔ اس دوران ان کے ساتھ بہت سارے دلچسپ واقعات پیش آئے۔
الثنیان بتاتے ہیں کہ سب سے پہلا دلچسپ واقعہ میرے ساتھ انتظامی امور سے میری ناواقفیت اور نااہلی کے حوالے سے پیش آیا۔ مجھے محکمہ تعلیم کا ذمہ دار بنایا گیا تھا۔ ڈیوٹی کا پہلا ہفتہ تھا۔ میرے سامنے ایک استاد کا معاملہ آیا۔ یہ ریاض گونریٹ اور محکمہ تعلیم دونوں سے متعلق تھا۔ اس پر محکمہ تعلیم کے قانونی مشیر نے جن کا تعلق مصر سے تھا ایک چھوٹا سا نوٹ چڑھا رکھا تھا۔ قانونی مشیر نے تحریر کیا تھا کہ گورنر ریاض شہزادہ سلمان نے متعلقہ استاد کے حوالے سے انتظامی ہدایت جاری کی ہے ۔ ہمیں سب سے پہلے تو یہ جاننا ہے کہ گورنر ریاض نے یہ ہدایت کیونکر جاری کی۔ انکے اختیارات کیا ہیں اور انہیں کس نے مذکورہ اختیارات دیئے ہیں کہ وہ محکمہ تعلیم کو ہدایت جاری کریں۔ میں نے نہ سمجھی کے باعث قانونی مشیر کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے ایک خط گورنر ریاض کو تحریر کرایا جس میں ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ کے اختیارات کیا ہیں؟ کس نے آپ کو یہ اختیار دیدیا کہ آپ محکمہ تعلیم کو ہدایت جاری کریں۔ یہ خط نہ صرف یہ کہ جلد بازی کا مظہر تھا بلکہ جرأت بیجا کا بھی عکاس تھا۔
خط بھیجنے کے بعد جب میں نے غور کیا تو مجھے اپنے رویئے پر تعجب ہوا کہ آخر اتنی بڑی غلطی میں کیونکر بیٹھا۔میں مانتا ہوں کہ زندگی سیکھنے کا نام ہے۔ انسان ہر روز تجربات سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے۔ مجھے جلد بازی پر شرمندگی ہوئی ۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اس کے جواب میں عتاب نامہ آئیگا۔ میری سرزنش ہوگی۔ کئی دن گزر گئے کوئی جواب نہیں آیا ۔ ایک دن میری نظر ڈاک پر پڑی تو کیاد یکھتا ہوں کہ گورنر ریاض نے میرے خط کا جواب ارسال کردیا ہے۔ جواب کیا تھا تہذیب ، شائستگی اور شخصیت کی عظمت کا آئینہ دار تھا۔ ایک طرح سے میرے لئے اس میں سبق بھی تھا ، رہنمائی بھی تھی ۔ جواب میں تحریر تھا کہ’’ گورنر ریاض نے مذکورہ ہدایت ریجن کے حاکم اعلیٰ کی حیثیت سے جاری کی ہے‘‘۔ یہ جواب میرے ذہن کے اسکرین پر ہمیشہ ایسے مرتسم رہتا ہے گویا میں اسے 24گھنٹے دیکھ رہا ہوں۔
ڈاکٹر عبدالعزیز الثنیان بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ حیرت انگیز واقعہ شاہی خاندان کے ایک فرد کی سرزنش کا میرے سامنے پیش آیا۔ تفصیل اسکی یوںہے کہ:
میں ایک دن گورنر ریاض کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا اسوقت میں ریاض محکمہ تعلیم کا ڈائریکٹر تھا۔ 2سیکریٹری گورنر کی خدمت میں فائلیں پیش کررہے تھے اچانک سیکیورٹی اہلکار نے دروازہ کھولا ۔ ایک دراز قامت شہزادہ داخل ہوا۔ شکل و صورت کے اعتبار سے نہایت وجیہہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ اسکی عمر 40برس ہوگی۔جب امیر سلمان نے شہزادے کو دیکھا تو فوراً کھڑے ہوگئے۔ ہم بھی کھڑے ہوگئے۔ امیر سلمان نے اسے خوب ڈانٹا ڈپٹا پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ شہزادے کی گدی پر رکھے اورانہیں دائیں بائیں مروڑا اور پھر اونچی آواز میں مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ کیا تم شاہ عبدالعزیز اور انکے رفقاء کے بنائے ہوئے قلعہ کو منہدم کرنا چاہتے ہو۔ کیا تم حکومت اور گورنریٹ کی تصویر مسخ کرنا چاہتے ہو؟
آنے والا شہزادہ خاموش کھڑا رہا اور گورنر ریاض کی جانب سے کی جانے والی سرزنش پر اپنا سر ہلاتا رہا۔ آخر میں شاہ سلمان نے اپنی سرزنش کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے آنے والے شہزادے کو حکم دیا کہ یہاں سے نکل جاؤ اور جو گڑبڑ کی ہے اسے ٹھیک کرو۔ خبردار آئندہ اس جیسا احمقانہ تصرف نہ کرنا۔ یقین رکھوکہ تمہارے حریف نے تمہیں تم سے ڈر کر نہیں چھوڑا۔ اس نے اس وجہ سے بھی تمہیں نظر انداز نہیں کیا کہ وہ تمہارے خلاف کچھ کرنے سے قاصرتھا۔ اس نے تمہیں صرف اسلئے چھوڑا کہ اسے شاہی خاندان سے تمہاری نسبت کا علم ہے۔ مگر یاد رکھو کہ ہمارے یہاں تمہاری حیثیت تمہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ لوگوں کے حقوق پر ہاتھ صاف کرو۔ جاؤ نکل جاؤ اور جو غلط کام کیا ہے اسے ٹھیک کرو۔ آئندہ اس جیسا کام کبھی نہ کرنا۔ جان لو کہ شریعت معمولی شہری کیلئے بھی ہے اور سردار کیلئے بھی۔ اس سلسلے میں امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں۔ عدالت سب کیلئے ہے۔ آنے والا شہزادہ منہ لٹکائے ہوئے چپ چاپ باہر چلا گیا۔
ڈاکٹر عبدالعزیز الثنیان نے ایک اور عجیب و غریب واقعہ کا تذکرہ کیا ہے۔ اسکا تعلق الخر ج کے عاشق زار سے ہے۔ شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے اسے مختلف انداز او رمختلف جذبے سے حل کرنے کا اہتمام کیا۔
باخبر رہیں، اردو نیوز نوٹیفیکیشن جوائن کریں
گورنر ریاض گورنریٹ کے استقبالیہ ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم انکی مجلس میں موجود تھے۔ اچانک ایک شخص آگے بڑھا اس نے ایک عرضی پیش کی۔ گورنر ریاض نے ایک نظر آنے والے شخص اور دوسری نظر اس کی عرضی پر ڈالی۔ کئی بار انہوں نے یہ عمل دہرایا کہ شاید وہ آنے والے شخص کی ذہنی حالت کو سمجھنا چاہتے تھے۔ پھر دونوں میں مندرجہ ذیل مکالمہ ہوا:
گورنر ریاض: کیا تمہیں پیش کردہ عرضی کا مضمون معلوم ہے؟
آنیوالا شخص: جی ہاں مجھے معلوم ہے۔ میں نے اس میں انتہائی قیمتی خزانے کی آپ کو اطلاع دی ہے۔ میں اسے اٹھانے اور منقل کرنے سے قاصر ہوں۔ یہ خزانہ آپ کے لئے تحفہ ہے۔
گورنر ریاض: شکریہ مگر خزانہ تمہارا ہے تمہارا ہی رہیگا۔
آنیوالا شخص: برائے کرم آپ خزانے کا تحفہ قبول کرلیجئے۔ میں بخدا پر ذہنی طور پر مکمل صحتمند ہوں۔ جو کچھ کہہ رہاہوں ہوش وحواس کے عالم میں کہہ رہا ہوں۔ میری گزارش ہے کہ آپ اسے قبول کرلیں۔
گورنر: خزانہ کیا ہے؟
آنیوالا شخص: الخرج میں ہے میں اسے نہیں لاسکتا۔ آپ میرے ساتھ کسی ایسے انسان کو بھیج دیجئے جو آپ کی خاطر یہ کام انجام دے سکے۔
گورنر ریاض نے ایک شخص کو جن تعلق الخرج سے تھا آنے والے شخص کے ہمراہ الخرج جانے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ وہ تفصیلات لیکر آئے۔
ڈاکٹر عبدالعزیز الثنیان بتاتے ہیں کہ اس شخص کے ساتھ معاملہ یہ طے پایا کہ ہم دونوں ریاض شہر کی السویدی مسجد میں عصر کے وقت ملیں گے اور وہاں سے الخرج روانہ ہونگے۔ خزانے کی جگہ دیکھیں گے۔ نماز کے بعد امام مسجد نے ہمیں روکا۔ ہم ان کے گھر گئے۔ میں نے انہیں کہانی سنائی۔ میں نے ان سے الخرج سے آنے والے شخص کے بارے میں دریافت کیا تو امام مسجد نے اسکی تعریف کی۔ میں نے امام صاحب کے سامنے اس کا قصہ اور قیمتی خزانے کا تذکرہ کیا تو امام صاحب تعجب میں پڑ گئے۔ وہ الخرج کے باشندے کی طرف متوجہ ہوکر اس سے دریافت کرنے لگے کہ ایسا کیا خزانہ ہے جسے تم گورنر ریاض کو تحفے میں دینا چاہتے ہو؟
آنے والا شخص : خزانہ درحقیقت ایک خوبصورت خاتون ہے۔ وہ الخرج میں سکونت پذیر ہے اور میں اس کی محبت میں پاگل ہوچکا ہوں۔ میری اس سے شادی اس لئے نہیں ہوسکتی کیونکہ میں اس کی مہر کی رقم اور شادی کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا۔ میں نے اخراجات جمع کرنے کی بیحد کوشش کی اب جبکہ میں مایوس ہوگیا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ پرندے کی صورت اڑ کر کہیں چلی جائے گی۔ میں رات بھر سوچتا رہا میرے ذہن میں یہ فکر سوار تھی کہ میں کہاں جاؤں کیا کروں۔ کیا میں مجنوں بن جاؤں یا قثیر عزہ کی پہچان بنالوں۔ یا کچھ کروں۔ مجھے ڈر ہوا کہ خدانخواستہ میں پاگل نہ ہوجاؤں میں اپنی عقل نہ کھو بیٹھوں۔ مجھے خدشہ ہوا کہ اس کا رشتہ اگر ہوگیا اوراس نے شادی کرلی تو میرے ذہن پر اسکا کیا اثر ہوگا۔ طویل اور عمیق سوچ کے بعد میرے ذہن نے مجھے یہ سجھایا کہ اس مسئلے کا حل سلمان بن عبدالعزیز کے سوا کسی کے پاس نہیں ہوسکتا۔ پھر میں نے سوچا کہ میں اپنی یہ بپتا انکے سامنے کیسے رکھوں ان سے کس طرح مدد حاصل کروں۔ اچانک میرے ذہن میں یہ خیال کوندا کہ میں خزانے کے عنوان سے اپنی کہانی گورنر ریاض کو سناؤں۔ ممکن ہے میرے مسئلے کا حل نکل آئے۔
اردو نیوز ایپ ڈاؤن لوڈ کریں
راوی کہتا ہے کہ مجھے الخرج کے عاشق زار سے انسیت پیدا ہوئی میں نے اگلے روز پورا قصہ گورنر ریاض کو سنایا انہوں نے سنتے ہی اس کی مدد او رجملہ اخراجات برداشت کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا۔