بانی مملکت شاہ عبدالعزیز ایک نظر میں
شاہ عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ 19ذی الحجہ1293ھ مطابق 1876ءکو ریاض شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنے والد کی سرپرستی میں نشوونما پائی انہوں نے شیخ قاضی عبداللہ الخریجی کو اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سپرد کردی تھی۔ شاہ عبدالعزیز نے شیخ الخریجی سے لکھنا پڑھنا سیکھا۔ قرآن کریم کی بعض سورتیں انکے ذریعے حفظ کیں اور پھر پورا قرآن شیخ محمد بن مصیبی کے ہاتھوں حفظ کیا۔ انہوں نے شیخ عبداللہ بن عبداللطیف آل الشیخ سے اصول فقہ اور توحید کے اسباق سیکھے۔شاہ عبدالعزیز بچپن ہی سے گھڑ سواری کے دلدادہ تھے۔
5 شوال 1319ھ کو شاہ عبدالعزیز آل سعود نے اپنے آبا و اجداد کے غصب شدہ ملک کے دارالحکومت ریاض شہر کو جرا¿ت مندانہ اقدام کرکے آزاد کرایا۔ ریاض کو آزاد کرانا معمولی کام نہ تھا۔ اسکے لئے بڑی شجاعت اوردلیری درکار تھی۔ ریاض کی آزادی نے مملکت سعودی عرب کے قیام کی راہ ہموار کردی۔
شاہ عبدالعزیز نے کلمہ حق کی سربلندی خالص توحید کے عقیدے کی اشاعت اور جزیرہ عرب کے عوام کو اللہ کے دین پرقائم کرنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگادی۔ انہوں نے ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ایک ، ایک شہری کے دل میں اللہ کی کتاب اور سنت مبارکہ کی شمع روشن کردی۔
شاہ عبدالعزیز نے پوری امت مسلمہ کو اسلامی تعاون اور اتحاد و اتفاق کی تحریک سے جوڑا۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے مکہ مکرمہ میں خصوصی کانفرنس بلائی۔ مملکت نے عرب لیگ اور اقوام متحدہ کے قیام میں بانی رکن کے طور پر حصہ لیا۔عالمی اور علاقائی مسائل کے حل میں ہمیشہ قابل قدر کردار ادا کیا۔
مملکت کی تعمیر و ترقی میں شاہ عبدالعزیز کا کردار: ۔
شاہ عبدالعزیز نے سعودی عرب کو سیاسی ، انتظامی، اقتصادی اور سماجی لحاظ سے جدید ترین ریاست کی شاہراہ پر گامزن کیا۔ انہوں نے قبائلی نظام کی جگہ اسلامی اور قومی نظام کی بنا ڈالی۔ انہوں نے بادیہ نشینوں کو چھوٹی چھوٹی بستیاں قائم کرکے آبادی میں رہنے کا عادی بنایا۔
شاہ عبدالعزیز کے ملفوظات: ۔
میں دین اسلام کا داعی ہوں۔ اسلام کو اقوام و ممالک میںپھیلانا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ سلف صالحین کے عقائد جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلانے کا پختہ عزم کئے ہوئے ہوں۔
میں بادیہ میں پلا بڑھا۔ لچھے دار گفتگو سے ناآشنا ہوں البتہ زمینی حقائق کو ہر طرح کی فنکاریوں سے پاک و صاف دیکھنے کا عادی ہوں۔مسلمان ہوں اور اسلام کو اپنے لئے انمول سرمایہ مانتا ہوں۔
مشورہ میری زندگی کا دستور ہے۔ حق کی پابندی میرا ایمان ہے۔بغیر مشورے کے کسی بھی کام کو نقصان کا باعث سمجھتا ہوں۔میں مشاورت کو قرآن و سنت کے دائرے میں دیکھتا ہوں۔