چوتھائی صدی کے دوران قیام امن کے امکانات کس نے گنوائے اور کس نے نہیں، اس پر ایک دوسرے کو لعنت ملامت کرنے کے بجائے بہتر ہوگا کہ فلسطینی اور اسرائیلی عوام کے درمیان پرامن بقائے باہم کے امکانات گنوانے کے پہلو کو زیادہ سنجیدگی سے دیکھا جائے۔ دونوں قوموں کی بھاری اکثریت پرامن بقائے باہم میں دلچسپی رکھتی ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام کشمکش کا خمیازہ بھگت چکے ہیں۔ کئی جنگیں کرچکے ہیں۔ کئی نسلیں یکے بعد دیگرے جنگو ںکے آتش فشاں میں جل چکی ہیں۔ اب جاکر انہیں یہ احساس ہورہا ہے کہ جنگ کی آگ صرف اور صرف مخلص سیاستدان ہی بجھا سکتے ہیں۔ مبنی بر انصاف امن جنگ کی آگ بجھاسکتا ہے۔ جمعرات کو اوسلو معاہدے پر 25برس بیت چکے۔ بہت سارے لوگوں نے اس پر اظہار خیال کیاجو توقع کے عین مطابق تھا۔ بہت سارے لوگوں کے ذہنوں سے ایک اہم حقیقت اوجھل رہی وہ یہ کہ یاسر عرفات کی ٹیم اور اسحاق رابن کی ٹیم کے درمیان ناروے کے دارالحکومت میں ہونے والے مذاکرات کے اختتام پر” امن معاہدے “ کا نہیں بلکہ ”امن اصولوں “ کا اعلان کیا گیا تھا۔
مغالطہ آمیزسوچ کے نتیجے میں بہت سارے لوگ امن معاہدے اور امن اصولوں کے اعلان میں فرق نہیں کرسکے۔ ممکن ہے کہ یہ خاص مقصد کے تحت بدنیتی کانتیجہ ہو۔ فلسطینی اور اسرائیلی کیمپوں میں انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والوں نے معاملات کو پیچیدہ بنایا۔ 13ستمبر 1983ءکو وائٹ ہاﺅس میں اوسلو معاہدے کی تقریب کے فوری بعد سے اسکا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ تبصرے اس انداز سے کئے گئے تھے کہ محمود عباس اور شمعون پیریز نے واشنگٹن میں جس معاہدے پر دستخط کئے ہیں وہ جامع امن معاہدہ ہے۔ اسی کو بنیاد بناکر سادہ لوح عوام کے جذبات کو گرمایاگیا۔ تفصیلات کو نظر انداز کردیا گیا۔ یہ کام فلسطینیو ںکی جانب سے بھی کیا گیا اور اسرائیل کی جانب سے بھی یہی ہنگامہ برپا کیا گیا۔ یہودی آباد کاروں اور دائیں بازو کے انتہا پسندوںنے کہا کہ اس سے اسرائیل کا امن خطرے میں پڑ جائیگا۔ بالاخر 4نومبر 1995 ءکو انتہا پسندو ںنے فائرنگ کر کے اسحاق رابن کی جان لے لی۔
اگر فلسطینی اوسلو معاہدے کو پیچیدہ بنانے کے بجائے اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے پہلوﺅں پر توجہ مرکوز کرتے تو شاید صورتحال مختلف ہوتی۔ دوسری جانب اگر اسرائیل کے سیاستدان اوسلو معاہدے کے سلسلے میں مخلص ہوتے تو امن کا کاررواں آہنی عزم کے سہارے اب تک کافی طویل سفر طے کرچکا ہوتا۔ وہ جو کہتے ہیں ناں کہ عزم ہو تو راستہ بن جاتا ہے، یہ درست ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ فلسطینی صدر جو اوسلو معاہدے پر دستخط کے حوالے سے معاہدے میں شامل اصولوں کی صداقت کے قائل تھے، انہوں نے اسکا دفاع بھی کیا تھا۔ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اوسلو معاہدہ مرچکا ہے۔