جزیرہ نمائے عرب سے چین کے تعلقات 2ہزار برس پرانے ہیں، سعودی اسکالر
ریاض.....سعودی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر علی الغبان نے واضح کیا ہے کہ جزیرہ نمائے عرب سے چین کے تعلقات 2ہزار برس سے کہیں زیادہ پرانے ہیں۔ چینی اور عرب صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں۔ فریقین ثقافتی رشتے بھی استوار کئے رہے۔ شاہراہ ریشم کا ایک اہم اسٹیشن جزیرہ عرب تھا۔ الغبان نے ان حقائق کا اظہار ریاض کے قومی عجائب گھر میں ان دنوں منعقدہ نمائش کے موقع پر کیا ہے جو "چینی نوادرات" کے نام سے ہو رہی ہے جس کے ذریعے چین اور عرب کے تعلقات کو اجاگر کیا جا رہاہے۔الغبان نے بتایا کہ قدیم دنیا کی تجارت میں مشرق کا کردار کلیدی تھا۔ اس وقت 3براعظموں میں ہر جگہ کے صارفین مشرق کے دونوں حصوں سے قیمتی اشیاءحاصل کیا کرتے تھے۔ ایک طرف تو مشرق بعید اور دوسری جانب مشرق قریب کے باشندے تینوں براعظموں کے صارفین کو قیمتی او راہم اشیاءفراہم کیا کرتے تھے۔ شاہراہ ریشم قدیم دنیا میں عالمی تجارت کا سب سے بڑا عالمی محور تھا۔ یہ مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق کی طرف آتا جاتا تھا۔ بری اور بحری راستوںسے تجارتی قافلے آتے جاتے۔ یورپی اسکالرز اسے شاہراہ ریشم کا نام دیئے ہوئے تھے کیونکہ یورپی ممالک چین سے ریشم درآمد کیا کرتے تھے۔ سب سے عمدہ ریشم چین سے منسوب تھی۔ شاہراہ ریشم کے دو اہم دھارے تھے۔ ایک شمالی تھا یہ بڑی شاہراہ ریشم چین سے نکل کر وسطی ایشیا سے گزرتے ہوئے یورپ جاتی۔ بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر واقع انطاکیہ جا کر ختم ہو جاتی۔ وہاں سے سمندر کے راستے اٹلی اور پھر وہاں سے بری راستے سے اسپین اور یورپ کے مغربی ممالک کا رخ کرتی تھی۔ اس شاہراہ نے اقوام عالم کے درمیان اقتصادی اور ثقافتی رشتے بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ دوسرا راستہ بحری شاہراہ ریشم کا تھا۔ یہ چین کی کنٹن بندرگاہ سے شروع ہوتا ، برصغیر کے ساحلوں سے پلٹتے ہوئے جزیرہ عرب کے اطراف واقع سمندر کا رخ کرتا۔ شاہراہ ریشم نے عالمی تجارت اور تہذیبی و ثقافتی مکالمے کی سبیل پیدا کی۔ چینی بحر ہند میں گھومتے پھرتے،عرب بھی ایسا ہی کرتے۔ چینی اور عرب تاجر جنوبی ہند کے ساحلی مقامات پر مل کر سامان کا تبادلہ کرتے۔ خوشبویات ، موتی ، تانبہ وغیرہ خریدتے۔ چینی اور ہندوستانی سامان جزیرہ عرب لایا جاتا۔ یہاں سے ایران ، عراق، شام ، مصر اور حبشہ وغیر ہ بھجوایا جاتا ۔ 7ویں صدی عیسوی میں اسلام کی آمد کے بعد عربوں اور چین کے درمیان تعلقات زیادہ مضبوط ہوئے۔ 8ویں صدی میں مسلمانوں کا اثرونفوذ چین کے مغربی علاقوں تک پہنچ گیا۔ بری اور بحری شاہراہ ریشم پر واقع بیشتر علاقے مسلمانوں کی قلمرو میں آگئے۔ اس تناظر میں فریقین کے تجارتی تعلقات میں نیا موڑ آیا۔ اسلامی فتوحات نے بڑا اقتصادی گروپ تشکیل دیا۔ چین نے باہمی تجارت کو فروغ دینے میں مسلم تاجروں سے تعاون کیا۔ اہل چین نے لڑائی جھگڑے کے بجائے مسلمانوں کے ساتھ حکمت اور فراست کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے مسلم ممالک کو سامان کی فراہمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عرب مورخین کی کتابوں کے مطابق عر بوں اورچین کے تعلقات خلفائے راشدین کے زمانے میں قائم ہو گئے تھے۔ عباسی دور میں دونوں کے تعلقات کو وسعت ملی، نویں صدی ہجری(15ویں عیسوی) تک تعلقات مسلسل بڑھتے رہے۔