جنوری کی سردی میں سیاست کا پارہ گرم
ہے نا حیرت کی بات؟ ایک طرف تو ہر شخص سال نو کی مبارک باد دینے اور وصول کرنے میں مصروف ہے تو دوسری طرف جنوری کی طرح سردی میں سیاست کا پارہ بلندی کی طرف مستقل بلند ہوتا نظر آرہا ہے۔ جانے تحریک انصاف کے وزراء کو ایک دم کیا ہوا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف مہم جوئی پر کمر کس لی۔ ایک نہیں تین چار وزراء نے سندھ کے وزیر اعلی کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔ کچھ نے صوبے میں گورنر رول تک کی بات کردی اور کوئی تو سندھ حکومت کو تحلیل کرنے اور پی ٹی آئی حکومت کو برسراقتدار میں لانے پر مصر نظر آئے۔ مگر کیوں؟ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر مراد علی شاہ کے خلاف منی لانڈرنگ کا الزام ہے تو انہیں مستعفی ہوجانا چاہیے۔ پی ٹی آئی نے تو مثال قائم کردی۔ اپنے 2 وزیر بابر اعوان اور اعظم سواتی کو الزام لگنے پر عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔ پھر فوری استعفیٰ کا مطالبہ جائز ہے لیکن گورنر رول لگانے میں ایک تو آئینی رکاوٹیں حائل ہیں۔ دوسرا یہ کہ منتخب حکومت کو ہٹانا زبردستی کے زمرے میں آتا ہے۔
زرداری نے صدر مملکت کی حیثیت میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے جہاں آرٹیکل 58(2-B) کی تنسیخ کی وہیں ایک شق اور داخل کردی کہ گورنر رول لگانے کیلئے صوبے کے وزیر اعلیٰ کی مرضی شامل ہونا چاہیے۔ اب یہ بتائیں کہ کون سا وزیر اعلیٰ اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرے گا۔ گورنر عمران اسماعیل نے جب سکھر کے قریب گھوٹکی میں گوہر مہر سے ملاقات کی تو انہوں سے سندھ حکومت کی تبدیلی پر خاموشی سے کام کیا۔ اگر کچھ ہوجاتا پی پی کے ایم پی ایز کو توڑنا شاید مشکل نہ ہوتا لیکن اللہ بھلا کرے فیصل واوڈا کا، فواد چوہدری، علی زیدی اور ریلوے منسٹر شیخ رشید کا کہ انہوںنے ڈھنڈورا پیٹ دیا کہ نہ صرف مراد علی شاہ کو منی لانڈرنگ کے الزام پر مستعفی ہوجانا چاہیے بلکہ پیپلز پارٹی کی بجائے صوبے میں گورنر رول لگا دیا جائے گا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ فواد چوہدری اور فیصل واوڈا جب بلند آواز میں اعلان کررہے تھے تو فواد چوہدری کا دورہ کراچی اچانک ملتوی کردیا گیا۔ ایک نجی ٹیلی ویژن کے معروف اینکر نے وزیر اعظم کے لوگوں سے معلوم کر کے بتایا کہ وزیر اطلاعات نے خود ہی کراچی کے دورے کا اعلان کردیا تھا۔
پیپلز پارٹی کو تو چراغ پا ہونا ہی تھا، سو وہی ہوئی۔ عمران نے بحرانی کیفیت دیکھ کر فواد چوہدری کو کراچی کا دورہ کرنے سے روک دیا۔ ظاہر ہے افتاد تو انہی کے سر پر پڑنی تھی۔ وہ خواہ مخواہ کیوں ایک اور مصیبت مول لیتا۔ پہلے ہی عمران کے سامنے مسائل کا انبار ہے۔ مزید مصیبت کیوں مول لی جائے۔عمران نے دانشمندی سے کام لیتے ہوئے فواد چوہدری اور فیصل واوڈا کو بلا کر خاموش رہنے کا مشورہ دیا جس سے پیپلز پارٹی کی مخالفت میں کمی آئی۔ ورنہ بلاول بھٹو نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ دوسری طرف سے آصف زرداری، مراد علی شاہ، خورشید شاہ سب ہی وزیراعظم کے پیچھے پڑ گئے۔ بلاول نے تو یہاں تک دھمکی دے دی کہ اگر پیپلز پارٹی کی حکومت گرائی گئی تو پیپلز پارٹی بھی 7/6 پی ٹی آئی کے ممبران کو اپنے ساتھ ملاکر عمران کی حکومت گرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ زرداری کے پاس دولت کی کمی تو ہے نہیں۔ 6 یا 7 قومی اسمبلی کے ممبران کو خریدنا اس کے لئے چٹکی کا کام تھا۔ عمران کو بھی اس کا بخوبی علم تھا۔ اس نے حفظ ماتقدم میں جو کچھ کیا اچھا کیا۔ ورنہ بحران تھا کہ بڑھ رہا تھا پھر اس پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتااور اگر کہیں دوبارہ انتخابات کی بجائے جمہوریت کی بساط ہی پلٹ دی جاتی تو کون روک سکتا تھا۔
عمران کے حلیف، پیر پگارا کی ڈیموکرٹیک الائنس اور 7 ممبران کی ایم کیو ایم نے بھی کسی غیر آئینی اقدام کی مخالفت کا اعلان کردیا تھا۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور نے بھی غیر آئینی اقدام کی کھل کر مخالفت کی۔ شکر ہے ملک ایک بڑے بحران سے بچ گیا۔ عمران خود بہت نیک نیت، صاف گو اور انصاف پسند انسان ہے تو پھر اس کی ٹیم میں ایسے بدعقل لوگ کیوں رکھے گئے۔ انگریزی کا مشہور محاورہ ہے کہ وزیر اطلاعات کو اپنی تشہیر نہیں بلکہ حکومت کی تشہیر کرنی چاہیے۔ یہاں تو مشاہد حسین، شیخ رشید، مریم اورنگزیب اور فواد چوہدری کو روز ہی پریس کانفرنس کرنے میں مزا آتا ہے۔ ابھی تک طوفان ٹلا نہیں۔ ترکی کے ایک روزہ دورے سے واپسی پر عمران خان خود سندھ کا دورہ اور اپنے حلیفوں کے علاوہ دوسروں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ دیکھیں وہ کیا گل کھلاتے ہیں۔