Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فضول خرچی اور رسمیں کرکے شادی بیاہ کو عذاب نہ بنائیں، امام حرم

مکہ مکرمہ ۔۔۔ مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر صالح بن حمید نے کہا ہے کہ تمام مسلمان سماجی تقریبات کی منفی رسموں سے پرہیز کریں۔ شادی بیاہ کو فضول خرچی اور بیجا رسمیں کرکے عذاب جان نہ بنائیں۔ وہ ایمان افروز روحانی ماحول میں جمعہ کا چشم کشا خطبہ دے رہے تھے۔ امام حرم نے توجہ دلائی کہ اسلام بندگان خدا کے مفادات کی تکمیل کیلئے آیا ہے۔ اسلام کی آمد کا مقصد بندوں کو ہر حال میں سکھ فراہم کرنا اور ان کے حال و مستقبل کو ٹھیک کرنا ہے۔ اسلام نے اپنے پیرو کارو ںکو عقائد، عبادات، معاملات، عادات، اقدار ، اخلاق ، سماجی تعلقات اور انسانی رشتوںکو منظم کرنے والے احکام دیئے ہیں۔ دنیا اور آخرت کو سنوارنے والی تعلیمات عطا کی ہیں۔ انسان جو کچھ کرتا ہے ان میں عبادات بھی ہیں۔ بندہ عبادات کرکے اپنا دین بناتا ہے۔عادات کے ذریعے اپنی دنیا سنوارتا ہے۔ امام حرم نے بتایا کہ رسم و رواج معاشرے کی دین ہیں۔رسم و رواج سے سماجی زندگی اچھی، بری ہوتی ہے۔ بہت ساری رسمیں ، بہت سارے رواج اخلاق فاضلہ کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ امام حرم نے توجہ دلائی کہ رسم و رواج ہر معاشرے کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ لوگ اپنے حالات، تقریبات اور غمی ، خوشی پر مختلف کام اپنوں اور خود کو خوشیاں دینے کیلئے اور غم کی دلدل سے نکالنے کیلئے کرتے ہیں۔ اس قسم کے مواقع پر کھانے پینے کے پروگرام بھی ہوتے ہیں۔ تحائف کے تبادلے بھی ہوتے ہیں۔ اسلام نے میل ملاپ کیلئے بہت ساری تعلیمات دی ہیں۔ سلام رائج کرنے کا حکم دیا ہے۔ مہمان کی ضیافت کی تعلیم دی ہے۔ نادار پردیسی کی مدد کا حکم دیا ہے۔ مصیبت زدہ کا سہارا بننے کا درس دیا ہے۔ اسلام کے تمام احکام انسانوں کے مفادات اور انہیں نقصانات سے بچانے کیلئے ہیں۔ اچھی روایتیں ، اچھے رواج اسلام کی نظر میں قابل قبول ہیں۔ ہر وہ کام جس سے انسانوں کا فائدہ ہو وہ اسلام میں نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ اسلام اسکی ترغیب دیتا ہے۔ اسی طرح ہر وہ رسم اور ہر وہ رواج جس سے انسانوں کو اذیت اور تکلیف ہوتی ہو اور وہ خوشی کے بجائے درد سری کا باعث بنتی ہو اسلام نے اس سے منع کیا ہے۔ امام حرم نے توجہ دلائی کہ ہمیں شادی بیاہ، تقریبات اور غمی کے مواقع پر اپنے معاشرے میں پائی جانے والی رسموں کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ شادی بیاہ پر بیجا خرچ ، کمر توڑ اخراجات بلکہ قرضوں کا بوجھ خوشی کے بجائے غمی اور درد سری کا باعث بن جاتا ہے۔ ہمیں اس قسم کی اپنی رسموں کی بابت از خود سوچنا چاہئے۔ میل ملاپ ، انسیت اور مسرت کے لئے ہے نہ کہ فخر و ناز کیلئے۔ ہم لوگوں نے ملاقاتو ںکو تکلفات کے بوجھ سے بوجھل کردیا ہے۔ سمجھدار لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ایسا کوئی رواج نہ اپنائیں جو اسلامی شریعت کے احکام کے منافی ہو۔ ایسی کوئی رسم نہ کریں جو زمانہ جاہلیت کے تعصبات اور تفرقہ و امتیاز کی طرف لیجائے۔ ہمیں اپنی ہر رسم اور ہر رواج کو اسلامی شریعت کی کسوٹی پر رکھ کر جانچنا چاہئے۔ دوسری جانب مدینہ منورہ میں مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب شیخ علی الحذیفی نے جمعہ کا خطبہ دن رات کے آنے جانے سے سبق لینے کے موضوع پر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے اس کی آرائش و آسائش نہایت معمولی ہے۔ دنیا کے حالات بہت زیادہ بدلتے رہتے ہیں۔ جو شخص بھی دنیا پر انحصار کرتا ہے وہ فریب خوردہ ہوتا ہے۔ دنیا کی عمر محدود ہے اور انسان کی عمر اس سے بھی کہیں زیادہ کم ہے لہذا ہمیں دنیاوی زندگی کو بنانے سنوارنے کیلئے لازوال زندگی کی تیاری نظر انداز نہیں کرنی چاہئے۔ امام الحذیفی نے کہا کہ سال کے جانے اور آنے میں ہمارے لئے بڑا سبق ہے۔ ہمیں سال کی آمد ورفت سے عبرت پکڑنی چاہئے۔ ہمیں آخرت کی فکر کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے رحمت کے دروازے کھول رکھے ہیں۔ اچھے کام کرکے ہم جنت اور برے کام کرکے دوزخ کے دروازے اپنے لئے کھولیں گے۔ ہمیں صحت عافیت اور عمر عزیز کے قیمتی لمحوں کو آخرت کی زندگی بنانے سنوارنے کے لئے تج دینے چاہئیں۔

شیئر: