مکہ مکرمہ ۔۔۔ مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر فیصل غزاوی نے کہا ہے کہ منحرفین حق کی طرف رجوع کریں اور نئی زندگی شروع کریں۔اسلام نے ہمیں گناہ یا غلطی کرنے پر توبہ کی صور ت میں حق کی جانب واپسی کا راستہ دکھا رکھا ہے۔ ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ وہ ایمان افروز روحانی ماحول میں جمعہ کا خطبہ دے رہے ہیں۔ امام حرم نے کہا کہ انسان فطری طور پر کمزورواقع ہوا ہے۔ وہ متضاد تصورات، خیالات، رجحانات اور حالات سے دو چار ہوتارہتا ہے۔ کبھی تردد اور تذبذب کا شکار ہوتا ہے۔ کبھی شبہات میں مبتلا ہوتا ہے تو کبھی تضادات میں پڑ جاتا ہے۔ کبھی غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے۔ اچھا مسلمان وہ ہے جو انحراف یا غلط روش اپنانے کے بعد حق معلوم ہونے پر صراط مستقیم پر واپس آجائے۔ امام حرم نے کہا کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بتایا ہے کہ انسان کمزو رپیدا کیا گیا ہے۔ مومن کی شان یہ ہے کہ جب اور جہاں بھی اسے حق نظر آتا ہے وہ اسے اپنا لیتا ہے۔ حق کی جانب واپسی بڑی خوبی ہے۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ شیطان بعض لوگوں کو حق نظر آنے کے بعد حق قبول کرنے سے یہ کہہ کر روک دیتا ہے کہ اس سے تمہاری بے عزتی ہوگی، تمہاری سبکی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ درست بات پر ثابت قدم رہنا عزت کی بات ہے اور غلط روش پر برقرار رہنا بے عزتی کی علامت ہے۔ امام حرم نے کہا کہ ہمیں وقتاً فوقتا© ً اپنا احتساب کرتے رہنا چاہئے۔ کبھی انسان لغزش کا شکار ہوجاتا ہے کبھی شیطان کے جھانسے میں آکر درست راستہ چھوڑ کر غلط راستے پر چل پڑتا ہے۔ بڑے لوگ کبھی بھی حق کی جانب واپسی میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ وہ غلط راستے پر برقرار رہنے میں اپنی عزت نہیں سمجھتے۔ امام حرم نے احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ ساری باتیں سمجھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سلف صالحین نے بھی ہمیں اپنے کردار و گفتار سے اسی عمل کی تلقین کی ہے۔ امام حرم نے کہا کہ جس شخص کو مذہب کی معرفت حاصل ہوجائے اور ایمان اس کے دل میں گھر کر جائے وہ کبھی بھی حق سے وابستگی کے سلسلے میں پس و پیش سے کام نہیں لیتا۔ انہوں نے کہا کہ بعض لوگ حق سے رو گردانی کرتے ہیں۔ اسکی بہت ساری شکلیں اور صورتیں ہیں۔ حق سے رو گردانی کسی طور درست نہیں۔ دوسری جانب مدینہ منورہ میں مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر عبدالمحسن القاسم نے جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ رنج و غم کے عالم میں مصیبت زدہ سے ہمدردی کا اظہار بڑا کارخیر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کاسبق دیا ہے اور اپنے اہل و عیال اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اس پر عمل کرکے بھی دکھایا ہے۔ امام مسجد نبوی شریف نے کہا کہ دین حنیف نے ہمیں اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ہم اہل اسلام کو دینی اور دنیاوی امور میں آسانیوں کی نوید سنائیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث مبارکہ کے ذریعے ہمیں ایسا ہی کرنے کی روشنی دی ہے۔ امام القاسم نے کہا کہ دین اسلام دین فطرت ہے۔ ہمارا مذہب اچھے عقائداور خوبصورت اخلاق نیز قابل تعریف خوبیاں اپنانے کی تعلیم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم لوگ اپنے ہم مذہبوں کو خوشخبریاں سنائیں۔ کار خیر پر اچھے اجر کی نوید پیغمبر وں اور نبیوں کا شیوہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی پیغمبر و نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے اپنے پیرو کاروں کو خوشخبریاں نہ سنائی ہوں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی مختلف علاقوں کیلئے اپنے داعی اور سفیر بھیجتے تو انہیں ایسا ہی کرنے کی تلقین کرتے۔ معاذ بن جبل اور ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو جب یمن بھیجا تو انہیں یہی ہدایت دی گئی تھی کہ ”آسانیاں پیدا کرو مشکل میں نہ ڈالو، خوشخبریاں سناﺅ متنفر نہ کرو“۔ دین اسلام زندگی کے جملہ شعبوں میں خوشخبریوں سے بھرا ہوا ہے۔ اسلام نے دنیاوی زندگی سے متعلق بھی اپنے پیرو کارو ں کو اچھے انجام کی خوشخبریاں سنائی ہیں اور آخرت کے حوالے سے بھی انہیں اچھے انجام کی نوید دی ہے۔ دین اسلام سے بڑھ کر کوئی اور دین ایسا نہیں جس نے معاشر ے میں خوشیاں تقسیم کی ہوں۔ اس حوالے سے اسلام خوبصورت ترین مذہب ہے۔