فہد عامر الاحمدی۔ الریاض
میری ایک رشتہ دار خاتون سے شامی پڑوسن ملنے کیلئے آئی۔ دونوں نے ایک دوسرے سے اپنا تعارف کرایا۔ شامی پڑوسن نے بتایا کہ اس کی شادی محبت کی ہے۔ بچپن سے ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ شامی پڑوسن نے میری رشتہ دار خاتون سے پوچھا کہ تمہاری شادی کس طرح ہوئی؟ اس نے ہنستے ہوئے مضحکہ خیز لہجے میں کہا کہ میرا خاوند اپنے والد کے ہمراہ ہمارے پڑوس میں منگنی کیلئے گیا تھا۔ پڑوسی نے بتایا کہ انکے یہاں شادی کی عمر والی کوئی لڑکی ہی نہیں۔ اس نے مشورہ دیا کہ پڑوس میں جو صاحب رہتے ہیں ان کی4بیٹیاں ہیں۔ شادی کے قابل ہیں۔ دونو ں بائیں جانب والے پڑوسی کے بجائے دائیں جانب والے پڑوسی کے غلطی سے ہمارے گھر پہنچ گئے۔ انہوں نے میرے ابا سے میرا رشتہ مانگا۔ اس طرح میری شادی ہوگئی۔ سعودی عرب میں اسی طرح شادیاں ہوتی ہیں۔ اسے ہم ”الزواج المدبر“ کہتے ہیں۔ یہ شادی والدین اور رشتہ داروں کے توسط سے ہوتی ہے۔ اس میں دولہا دلہن کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔اصولاً لڑکا اور لڑکی دونوں رشتہ پر اعتراض کرسکتے ہیں لیکن وہ کس سے شادی کریں اور کس سے نہ کریں اسکا احتیار انہیں نہیں ہوتا۔
اس قسم کی شادیاں ہندوستان، سری لنکا ، ایران اور بیشتر عرب ممالک میں رائج ہیں۔سعودی عرب میں اس حوالے سے سختی کچھ زیادہ ہے۔ کبھی کبھار عقد نکاح کے وقت تک دولہا اور دلہن کے درمیان کسی طرح کا کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ دونوں ایک دوسرے سے مکمل فاصلے پر ہوتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شادی کے بعد دلہن کو پتہ چلتا ہے کہ اسکا شوہر چین اسموکر ہے۔یا اسکا خاوند توتلا ہے۔ کبھی شوہر کو پتہ چلتا ہے کہ اسکی بیوی تو ذہنی مریضہ ہے یا اسکی اصل شکل تہہ در تہہ میک اپ کے اندر چھپی ہوئی ہے۔ والدین کی مرضی سے ہونے والی شادی کا طریقہ کار واحد نہیں اقوام عالم میں شادی کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ مغربی دنیا میں دولہا دلہن ایک دوسرے سے بات چیت کرکے شادی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہاں اس بات کا کوئی تصور ہی نہیں کہ کوئی بھی لڑکا یا لڑکی شادی کا فیصلہ از خود نہیں کرینگے بلکہ کوئی اور انکی شادی کے فیصلے کا مجاز ہوگا۔
کہا جاسکتا ہے کہ براہ راست یا بالواسطہ شادی کے یہ دونوں طریقے دنیا بھر میں 97فیصد تک رائج ہیں۔دیگر 3فیصد طورطریقے نادر الوقوع ہیں۔ مثال کے طور پر باندی بناکر کسی سے شادی رچا لی جائے یا دلہن خرید لی جائے یا خاندان کے قرضے کے بدلے شادی ہوجائے یا مستقبل کی دلہن کو اغوا کرلیا جائے۔ شام میں دلہن کے اغوا کی شادی کا رواج پایا جاتا ہے۔ اسی طرح اور بھی شادی کے طور طریقے رائج ہیں۔ میں دیگر تمام طریقوں کو شادی نہیں بلکہ زیادتی کے دائرے میں رکھتا ہوں۔ انکا شادی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں شادی کا جو اصل مقصد بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے مودت اور رحمت کا باعث بنیں۔ دونوں ایک دوسرے کے سکون کا ذریعہ بنیں اور یہ ہدف مبینہ 2طریقوں کے سوا ہونے والی شادیوں میںسے کسی سے حاصل نہیں ہوتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭