خالد المالک ۔ الجزیرہ
سوڈان کے شہروں اور سڑکوں پر مظاہرین کا نکلنا کوئی انوکھی بات نہیں۔ مظاہرین ملک کی اقتصادی صورتحال کے شاکی ہیں۔ اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ بھاری تعداد میں لوگ سڑکوں پر آئیں او رمجوزہ حل کی بابت موافقت مخالفت کا برملا اظہار کریں۔ مظاہروں سے قبل بھی اقتصادی مسائل پر موافق مخالف ردعمل چل رہا تھا۔ سوڈانی عوام 2گروپوں میں منقسم ہوگئے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو حکمرانوں کی حمایت کررہے ہیں۔ دیگر وہ ہیں جو حکومت کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ سوڈانی عوام سیاسی پارٹیوں کے اشاروں پر متحرک ہوتے ہیں۔ قانون سیاسی پارٹیوں کی منظوری دیئے ہوئے ہے۔ پرامن مظاہرے سوڈانیوں کی ثقافت کا اٹوٹ حصہ ہیں۔
سوڈان اور دیگر ممالک میں مظاہرے عام طور پر پرامن اور منظم شروع ہوتے ہیں۔ اچانک اپنی ڈگر سے ہٹ جاتے ہیں۔ تشدد ، تخریب کاری کاسلسلہ بھی چل پڑتا ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کنٹرول نہ کریں تو مظاہرے اپنی روش سے نکل پڑتے ہیں۔ بعض درانداز مظاہروں کا فائدہ اٹھا کر اپنے ایجنڈے کیلئے کام شروع کردیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ وہ ہوتے ہیں جو خارجی طاقتوں کے اشاروںپر یہ کام کرتے ہیں۔ بعض اقتدار پر قبضے کے چکر میں اس طرح کی حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔ مصر میں یہ ہوچکا ہے جہاں الاخوان المسلمون نے حسنی مبارک کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے زبردست عوامی مظاہروں سے ناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔الاخوان نے عوامی انقلاب کو یرغمال بنالیا تھا اور فوج کی جانب سے اپنے اقتدار کا تصفیہ کئے جانے سے قبل مصر پر ایک برس تک حکمرانی کی تھی۔
مجھے جس بات کا خدشہ تھا اور ہے وہ یہ کہ جس طرح کئی عرب ملکوں کو اپنے یہاں غیر منظم عوامی مظاہروں کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑا کہیںوہ صورتحال سوڈان میں نہ جنم لے لے۔ مجھے یقین ہے کہ سوڈانی عوام مسائل حل کرسکتے ہیں۔ کئی عشروں کے دوران جو کامیابیاں ملی ہیں انہیں نقصان پہنچائے بغیر مسائل حل کئے جاسکتے ہیں بشرطیکہ مظاہرین میں ایسے عناصر کو نہ شامل ہونے دیا جائے جو سرکاری اور نجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوجاتے ہیں۔
مکالمہ ہی اصلاح حال کا بہترین راستہ ہے۔ سوڈان کے حکمرانوں اور ناراض عوام کے درمیان ہوش مند مکالمے کے ذریعے ساری گتھیاں سلجھائی جاسکتی ہیں۔ فریقین کو اپنے بعض مطالبات سے دستبردار ہونا ہوگا۔ کوئی بھی فریق اتنا طاقتور نہیں کہ وہ دوسرے فریق کو مکمل طور پر قابو کرسکے۔ سارے فریق سوڈان کو درپیش بحران سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کریں بات تب ہی بنے گی۔
میں نہیں چاہتا کہ سوڈان کے اندرونی امور میں دخل اندازی والی کوئی بات کہوں کیونکہ خرطوم، ام درمان اور دیگر شہروں میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سوڑان کا اندرونی معاملہ ہے۔ اہل سوڈان اپنے مفادات اور اپنے ملک کے مفادات سے ہم سے کہیں زیادہ واقف ہیں۔ عمر البشیر کی حکومت کا فرض ہے کہ وہ مظاہرین سے نمٹتے وقت ملکی امن و استحکام کا تحفظ کریں۔ مظاہرین اور سرکار کی ذمہ داری ہے کہ خونریزی سے بچا جائے۔ ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جس سے ملکی مفادات کو کوئی نقصان پہنچے یا صورتحال انارکی کی جانب لےجائے جس کا فائدہ کسی بھی فریق کو نہیں ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ برسر پیکار فریقوں کے نقطہ ہائے نظر میں موجود خلیج کو کس طرح پاٹا جاسکتا ہے؟ یہ سوال ایسے عالم میں زیادہ اہم ہوجاتا ہے جبکہ مظاہرین اور حکمراں طبقے کے درمیان مفاہمت کا فقدان ہو۔ سوڈان کو کم از کم نقصانات کے ساتھ اس بحران سے کس طرح نکالا جاسکتا ہے جبکہ ہر فریق اپنے موقف پر اڑا ہوا ہو اور اسے اس بات کا یقین ہو کہ وہی حق پر ہے۔ اسے یہ احساس ہو کہ حل اسی کے ہاتھ میں ہے کسی اور کے نہیں۔ انتہائی کشیدہ ماحول میں سوڈان کو خطرات سے بچانا کیونکر ممکن ہوگا؟
یہ اور اس جیسے دیگر سوالات ہمیں یہ کہنے پر آمادہ کررہے ہیں کہ سوڈان انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔سوڈان کے برادر ممالک کا فر ض ہے کہ وہ سوڈان کی انحطاط پذیر معیشت کا حدود اربعہ متعین کریں۔ اسکی مدد کریں۔ سوڈانی عوام کو حکومت کے خلاف سول نافرمانی تحریک چلانے سے روکیں۔ایسے نظام کے خلاف مظاہروں سے باز رکھنے کا اہتمام کریں جو 30برس سے ملک کا حکمراں ہے۔ غالباً شاہ سلمان نے سوڈان کی ضروریات دریافت کرنے کیلئے جو اعلیٰ سطح کا وفد خرطوم بھیجا تھا وہ سوڈانی ریاست اور عوام کے مسائل کے حل کی کلید بن سکتا ہے۔
سعودی عرب سوڈان کو 23ارب ریال سے زیادہ ترقیاتی قرضوں کی صورت میں دے چکا ہے۔ ان میں 8ارب شاہ سلمان کے عہد میں دیئے گئے۔ متعدد منصوبے زیر غور ہیں۔ سوڈا ن اور سعود ی عرب کے تعلق کی تاریخ بیحد پرانی ہے۔ صدر عمر بشیر سے ہماری آرزو یہی ہے کہ وہ حکمت و فراست سے کام لیں۔ ناراض عوام کے ساتھ حسن تصرف کا مظاہرہ کریں۔ جلتی آگ میں تیل چھڑکنے والے کسی بھی فیصلے سے پرہیز کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭