”خونیں تکونا“ ....کشمیر اور کشمکش کے انگارے
جمعرات 28 فروری 2019 3:00
فہد سلیمان الشقیران ۔ سعودی کالم نگار اور اسکالر۔ الشرق الاوسط
1973ءکے دوران ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی تیسری جنگ کے بعد سے پوری دنیا دونوں ملکوں کے درمیان مسلسل کشمکش کو عالمی امن و سلامتی کیلئے خطرہ شمار کررہی ہے۔ تیسری جنگ کا نتیجہ ہندوستان کی فتح اور بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صور ت میں برآمد ہوا تھا۔ امریکہ کے گو مگوں والے موقف اور پاکستان کیساتھ اس کے اتحاد میں رخنہ پیدا ہونے کے بعد پاک و ہند کے درمیان کشمکش کا خطرہ زیادہ بڑھ گیا۔ تنازع کے خاتمے کا کوئی بھی دعویٰ کرنا بیحد مشکل ہے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ دونوں ملک افغانستان پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ ولیم ڈیرنبل نے اپنے انتہائی اہم مضمون میں اس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے مضمون کا عنوان ”خونیں تکونا ، افغانستان، پاکستان اور ہندوستان“ باندھا ہے۔ وہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ”پاکستان کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان نے انکے ملک کے حصے بخرے کردیئے جس نے انہیں افغانستان کیساتھ محبت کے رشتے استوار کرنے کی تحریک دی اور وہ افغانستان کیساتھ اس تعلق کی حفاظت کی سر توڑ کوشش کررہے ہیں۔ مقصد جغرافیائی اسٹراٹیجک منصوبے کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ اسکا ہدف یہ بھی ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی جنگ چھڑتی ہے تو ایسی صورت میں پاکستان کو محفوظ پناہ گاہ حاصل ہو۔ وہ ہندوستان کی لشکر کشی کی صورت میں شمال مغرب کی طرف محفوظ انخلاءکرسکیں“۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ ولیم ڈیرنبل ایسا قلمکار ہے جس نے برصغیر کے تنازعات پر 9کتابیں قلمبند کی ہیں۔
ڈیرنبل ، افغانستان میں پاک و ہند کی مسابقت کی کہانی کو 1947ءکے دوران برصغیر کی تقسیم کے دور سے جوڑ رہا ہے۔ اُس وقت برطانوی حکمراں دوسری عالمی جنگ کے بعد ہندوستان کو خیر باد کہہ رہے تھے۔ برصغیر کی تقسیم سے ہندو اکثریت والا ہندوستان اور مسلم اکثریت والا پاکستان2 ملک قائم ہوئے البتہ کشمیر کا کانٹا دونوں ملکوں کے حلق میں بو دیاگیا۔ہندوستان پر برطانوی راج کے زمانے میں کشمیر پر ایک راجہ راج کیا کرتا تھا۔کشمیر کی بابت امید یہ تھی کہ یہ پاکستان کا حصہ بنے گا تاہم ڈیرنبل کے بقول بوجوہ ایسا نہ ہوسکا۔ ڈیرنبل اس پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہندوستانی مہاراجہ اور معروف مسلم سیاستدان شیخ عبداللہ کے یہاں ہند نواز جذبات نیز ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کے کشمیری ہونے کی وجہ سے کشمیر ہندوستان کا حصہ بن گیا۔ پاکستان نے کبھی اس بات کو قبول نہیں کیا۔
پاکستان اور ہندوستان کے عوام کبھی عسکری جنگ اور کبھی سرد جنگ کے باعث مختلف تنازعات کا شکار رہے۔ دونوں ملکوں کے عوام ان تنازعات کے باعث اقتصادی شرح نمو میں تیزی لانے کے متعدد بڑے مواقع سے محروم ہوگئے۔ دونوں ملک تجدید اور ترقی کے بڑے کارنامے انجام دے سکتے تھے نہ دے سکے۔ حال ہی میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پہلے پاکستان اور پھر ہندوستان کا دورہ کیا۔ دونوں ملکوں کے ساتھ شراکت کے رشتے استوار کئے۔ مختلف شعبو ںمیں تعاون کو فروغ دینے کی زمین ہموار کی۔ وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب دونوں ملکوں کا دوست ہے۔ مملکت نے مسئلہ کشمیر کے حل کا فارمولا بھی دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں نے فارمولے پر مثبت ردعمل دیا اور اسکا خیر مقدم کیا۔ اسکی امید اس لئے اور زیادہ روشن ہوگئیں کیونکہ عمران خان پاکستان کے وزیراعظم بن گئے اور وہ مذاکرات کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ وہ خوبی ہے جو مشکل سے مشکل مسئلہ کے حل میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
ہنری کسنجر نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”بین الاقوامی نظام“ میں تحریر کیا ہے کہ ہندوستان 1962ءمیں چین اور پاکستان کیساتھ 4جنگوں کے باعث تھکا ہوا ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان بین الاقوامی نظام کا نظریاتی طور پر پابند رہا۔ نہرو نے پرامن بقائے باہم کے 5 اصول مقرر کئے۔* ایک دوسرے کا احترام*عدم جارحیت * عدم مداخلت *مساوات اور پرامن بقائے باہم ۔ یہ5اصول بنائے گئے۔ دوسری جانب چیلنجوں کی آگ نے پاکستان کو بوجھل کردیا۔ پاکستان کو سب سے بڑا چیلنج دہشتگردی کی صورت میں ملا۔ امریکہ نے 11ستمبر کے طیارہ حملوں اور طالبان کے سقوط کے بعد پاکستان سے منہ پھیر لیا۔ امریکہ کے جنرل مائیکل مولن نے پاکستان کو تاریخی اتحادی قرار دیا۔ہالبروک نے کہاکہ پاکستان میں ہمارے فیصلہ کن مفادات ہیں۔اگر ہم پاکستان کو صحیح راستے میں لانے میں کامیا ب نہ ہوئے تو پورا علاقہ آئندہ 20سال میں غزہ پٹی میں تبدیل ہوجائیگا۔
ہندوستان اور پاکستان یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ موجودہ مرحلہ سیاسی اختلاف ، تدریجی طور پر ایک دوسرے کےلئے کھلنے کے امکانات اور دہشتگردی کے انسداد نیز معلومات کے تبادلے کے حوالے سے ٹھوس تعاون کی بابت بیحد اہم ہے۔دونوں ملک جغرافیائی کشمکش بھی ختم کرسکتے ہیں اور یہ دونوں ملکوں کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ حل کا سعودی فارمولہ مذاکرات کے حوالے سے نقطہ آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭