Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانی حقوق کی پابندی

پیر 4مارچ 2019ءکو سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ” البلاد“ کا اداریہ نذر قارئین ہے
  سعودی عرب نے نہ صرف یہ کہ انسانی حقوق کی پابندی کو اپنی شناخت بنایا ہے ، اس حوالے سے سعودی عرب کی پہچان شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ سعودی عرب کا آئین عدل و انصاف ، مشاورت اور اسلامی شریعت کے مطابق مساوات پر مبنی ہے۔ سعودی عرب اپنے آئین میں یہ بات صاف کئے ہوئے ہے کہ ریاست ہی انسانی حقوق کے تحفظ کی ذمہ دار ہوگی۔ علاوہ ازیں آئین میں متعدد حقوق کا خاص طور پر ذکر کیاگیا ہے۔ مثال کے طورپر اس امر کی تاکید کی گئی ہے کہ شہریوں کی تعلیم ، صحت ، روزگار ، سماجی کفالت، نجی سلامتی ، رہائش کے تقدس ، رابطہ جات کی آزادی ریاست کا فرض ہے۔ سعودی آئین میں یہ بات بھی صاف کردی گئی ہے کہ کسی بھی جرم کے ارتکاب پر سزا کا سزا وار جرم کا ارتکاب کرنے والا ہی ہوگا کوئی اور نہیں۔ریاستی اداروں کے درمیان علیحدگی اور عدلیہ کی خودمختاری کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والے تمام قومی اور بین الاقوامی معیاری ضابطوں کے لحاظ کا بھی تذکرہ ہے۔ 
سعودی عرب نہ صرف یہ کہ حفاظتی انتظامات کے دائرے میں دہشتگردی کا انسداد کررہا ہے بلکہ ایک جامع نظام کے تحت دہشتگردی کے مقدمات کے ملزمان سے نمٹنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ دہشتگردی کے ملزمان کو جملہ قانونی سہولتیں مہیا ہیں۔علاوہ ازیں ملزمان کے اہل خانہ دہشتگردی کے متاثرین اور خود مجرموں کو مطلوب تحفظ فراہم کرنا سرکار کی ذمہ داری ہے۔سعودی حکومت منحرف افکار سے نمٹنے کی تدابیر بھی اپنائے ہوئے ہے۔ دہشتگردی کی ممکنہ فنڈنگ سے نمٹنے کی تاکید بھی سعودی پالیسی کا اٹوٹ حصہ ہے۔ دہشتگردی سے نمٹتے وقت انسانی حقوق کا احترام بھی کیاجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے اقوام متحدہ کے ماتحت انسانی حقوق کے عہدیداروں کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دینا اس جذبے کا عکاس ہے کہ سعودی عرب انسانی حقوق کے بین الاقوامی طور طریقوں کی پابندی بھی کررہا ہے اور اس سلسلے میں عالمی اداروں سے بھی تعاون کی پالیسی پر گامزن ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: