چیئرمین نیب، جناب شرم کی کیا بات؟ عمار مسعود کا کالم
چیئرمین نیب، جناب شرم کی کیا بات؟ عمار مسعود کا کالم
بدھ 29 مئی 2019 3:00
عمار مسعود
چیئرمین نیب کی مبینہ ویڈیو کے حوالے سے بہت ہاہا کار مچی ہوئی ہے
چیئرمین نیب کی مبینہ ویڈیو کے حوالے سے بہت ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ ہر شخص اس بحث میں کود پڑا ہے۔ سب کی اپنی اپنی رائے ہے۔ اگرچہ اکثریت نے اس وڈیو کے مبینہ واقعات کو ناپسند کیا اور کچھ نے تو چیئرمین نیب کو بہت ہی رکیک مشوروں سے بھی نوازا۔
تماشہ یہ ہے کہ چیئرمین نیب کی اس ویڈیو کے حوالے سے وہ شادی شدہ لوگ بھی کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں جن کے اپنے موبائل میں ’بشیر مستری‘ یا ’صدیق حلوائی‘ کے نام سے ’جانو‘ کا نمبر محفوظ ہوتا ہے۔ کچھ اصحاب صورت حال کا تجزیہ کچھ اس طرح کر رہے ہیں کہ ایسے کام میں تو کوئی حرج نہیں لیکن ایسے نازک مواقع پر احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یعنی اس فعل کی تادیب مقصد نہیں سارا رنج پکڑے جانے کا ہے۔
ہمارے ہاں پکڑے جانے والا ہی مجرم کہلاتا ہے اور باقی سارا سماج ایسا ’نیک پروین‘ بن جاتا ہے جیسے سات پردوں میں پرورش ہوئی ہے۔ جیسے برائی کی استطاعت تو دور کی بات ہے کبھی برائی کا خیال تک ذہن کو چھو کر نہیں گزرا ہو۔ یہی سارا طبقہ چیئرمین نیب سے عجیب عجیب تقاضے کر رہا ہے۔ کوئی ٹی وی سکرین پر لائیو معافی منگوانا چاہتا ہے۔ کوئی استعفے کا طلب گار ہے۔ کسی کا مطالبہ شرم سے ڈوب مرنے کا ہے، کوئی خود کشی کی فرمائش کر رہا ہے اور کوئی سرعام کوڑوں کی سزا تجویز کر رہا ہے۔
چیئرمین نیب جناب جاوید اقبال کی زندگی بہت دلچسپ رہی ہے۔ تنازعات میں گھرے رہنے کی ان کی عادت پرانی ہے۔ میرے ممدوح بلوچستان کے ڈومیسائل پر بلوچستان ہائی کورٹ میں جج تعینات ہوئے۔ جنرل مشرف کے دور میں افتخار چودھری کے ساتھ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا موقع ملا تو موصوف ذرا نہ جھجھکے۔
بات یہیں ختم نہں ہوتی، جب جنرل مشرف کے مارشل لا کے خلاف مقدمہ سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا تو نہ صرف حالیہ چیئرمین نیب نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس مارشل لا کو جائز قرار دیا بلکہ بن مانگے آئینی ترامیم کی بھی اجازت دے دی۔
نو مارچ کو جب جنرل مشرف نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کیا تو اس وقت چیف جسٹس کا عہدہ جاوید اقبال صاحب کو ’طوہاً و کرہاً‘ قبول کرنا پڑا۔
تین مارچ کو جب ایمرجنسی لگائی گئی تو جہاں دیگر ججز کو گھروں میں قید کر دیا گیا تھا وہاں انہیں ایک معمولی سی نوکری ’پریس کونسل آف پاکستان‘ کی سربراہی کی پیشکش کی گئی جو انہوں نے بخوشی قبول کر لی حالانکہ یہ ان کے منصب سے بہت کمتر عہدہ تھا۔
ایبٹ آباد کمیشن کی سربراہی بھی اتفاق سے ان کا مقدر بنی ۔ یہ وہی کمیشن ہے جس کی باضابطہ رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی۔
ساری دنیا سوال کرتی رہی مگر جاوید اقبال صاحب نے ایسی چپ سادھ لی کہ دنیا کو بھی خاموش ہونا پڑا۔ لاپتہ افراد کے کمیشن کی سربراہی کا قرعہ بھی انہی کے نام نکلا اوراس کا نتیجہ بھی ایبٹ آباد کمیشن سے مختلف نہیں نکلا۔ نہ لاپتہ افراد بازیاب ہوئے نہ لاپتہ کروانے والوں کی نشاندہی ہوئی۔ نہ لاپتہ افراد کے گھر والوں کے دکھ کا مداوا ہوا۔ بس ایک مسلسل خامشی ہی مقدر بنی۔
اکتوبر 2017 کو حکومت اور اپوزیشن کے تعاون سے جاوید اقبال کو نیب کا چیئرمین بنا دیا گیا اور اس کے بعد سے ان کو چیئرمین بنانے والے انہی کے خلاف ہزرہ سرا ہیں۔ نیب کی ہر کارروائی کو انتقامی سیاست کہا جا رہا ہے۔ ہر ٹاک شو میں نیب کی کارکردگی پر سوال اٹھتے ہیں۔ لیکن جاوید اقبال جانتے ہیں کہ چیئرمین تو وہ سیاسی جماعتوں کے تعاون سے بن چکے ہیں اب ’کچھ اور‘ کر گرزنا ہو گا۔
اسی ’کچھ کر گزرنے‘ کی وجہ سے دونوں بڑی سیاسی جماعتیں انہیں اپنے ہاتھوں سے چیئرمین لگا کر پچھتاتی رہی ہیں۔ جب بھی نیب کی جانب سے سیاسی انتقام کا سوال آتا تو حکومت کی جانب سے جواب یہی ملتا ہے کہ ہمیں کیا پتہ یہ چیئرمین تو آپ نے خود لگایا تھا۔ یہ وہی بات ہے جیسے جنرل ضیا الحق کو آرمی چیف تو ذوالفقارعلی بھٹو نے ہی بنایا تھا تو اگر بھٹو پھانسی پر چڑھے تو اس میں سارا قصور بھٹو کا تھا۔ ضیا الحق بیچارے تو حالات کے سامنے مجبور تھے۔
اب جو احباب تازہ ترین ویڈیو کے اجرا پر استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ خوابوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ جس شخص نے پی سی او کے تحت حلف لیا اور اس وقت استعفٰی نہیں دیا تو حالیہ واقعہ تو بہت معمولی سی بات ہے۔
اب جو لوگ سوشل میڈیا پر شرم سے ڈوب مرنے کا کہتے ہیں، خود کشی کا مشورہ دیتے ہیں یا پھر استعفے کا مطالبہ کر تے ہیں تو ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ ان کا واسطہ کس زیرک شخص سے پڑا ہے۔ جب اتنے بڑے واقعات پر خاموشی کا چلن دکھایا تو یہ حالیہ واقعہ تو بہت معمولی سی بات ہے۔ آخر اس میں شرم کی ایسی کیا بات ہے؟