ایک پورا دور رہا جب ہالہ کامخدوم خاندان سندھ کی سیاست اور پیپلزپارٹی میں ناگزیر رہے
ذوالفقار علی بھٹو نے ایک مرتبہ شام کی محفل میں اپنے ایک قریبی دوست نواب احمد سلطان چانڈیو کو بتایا کہ وہ نئی پارٹی بنا رہے ہیں۔ لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے سردار چانڈیو نے انہیں مشورہ دیا کہ جب تک بڑے گدی نشین اس میں نہیں ہوں گے پارٹی نہیں چلے گی۔
معلوم نہیں بھٹو نے نواب چانڈیو کے مشورے پر عمل کیا یا اپنے طور پر فیصلہ کیا۔ انہوں نے سندھ میں ایک ایسی شخصیت کو ڈھونڈ نکالا جو گدی نشین بھی تھے، سیاست میں بھی تھے اور جن کا سندھ بھر میں وسیع حلقہ احباب بھی تھا۔ وہ تھے مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ، ان کے سندھ کے علاوہ پنجاب کے گدی نشینوں اور وڈیروں سے بھی دوستانہ روابط تھے۔
سیاست میں آنے کے بعد درگاہ مخدوم سرور نوح کے 17 ویں سجادہ نشیں طالب المولیٰ صوبائی اور قومی اسمبلی کے کئی بار رکن بنے، انہوں نے کئی ادبی تنظیموں کی بنیاد رکھی، ادبی میگزین جاری کئے اور ہالہ میں ان دنوں پرنٹنگ پریس لگوایا جب پریس کی تنصیب آسان کام نہیں تھا۔
تقسیم ہند کے بعد سندھی ادب اور زبان کو نقصان پہنچا جس کا ازالہ کرنے میں انہوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ اور سندھ کے ادب اور ثقافت کو زندہ رکھنے اور اجاگر کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ طالب المولیٰ پیپلزپارٹی کے آخری وقت تک وائس چیئرمین اور سندھی ادبی بورڈ کے چیئرمین تھے۔ انہوں نے اپنے خاندان کو یہ دونوں ادارے ورثے میں دیے، ان کے بیٹے سعید الزماں اور پوتے مخدوم جمیل الزمان بورڈ کے چیئرمین رہے۔
پیپلزپارٹی کی قیادت کی اب چوتھی پیڑھی چل رہی ہے اورمخدوم خاندان کی تیسری، ایک پورا دور رہا جب ہالہ کا مخدوم خاندان سندھ کی سیاست اور پیپلزپارٹی کے لیے ناگزیر رہا۔
سندھ کی سیاست میں تبدیلی کی ہوائیں ایسی چلیں کہ روایتی سیاسی خاندان کی حیثیت کم ہو گئی اور مخدوم خاندان اپنے آبائی ضلع مٹیاری ہالہ میں اپنی نشستیں بچانے تک محدود ہوگیا۔ لوگوں کو شکایات ہیں کہ ہمارے کام نہیں ہوتے، پارٹی لیڈروں تک رسائی نہیں ہوتی، وہ مل نہیں پاتے۔
اگرچہ بھٹو اور پگاڑا دو مخالف انتہائیں تھی، لیکن پیر پگاڑا علی مردان شاہ جب کراچی اور آبائی گاؤں پیر جوگوٹھ آتے جاتے تو ہالہ میں طالب المولیٰ کے پاس چائے ضرور پیتے تھے۔ یہ روابط کا سلسلہ بعد میں بھی مخدوم فیملی نے جاری رکھا۔
ایک دوسرے کے گلے کاٹنے والی پاکستان کی سیاست میں غدار ’بروٹس‘ بہت مل جاتے ہیں لیکن ایک وفادار’اینٹونی‘ ملنا مشکل ہے۔ ’سیزر‘ (بھٹو) کو سزائے موت کے بعد بے نظیربھٹو کے انکل بشمول ممتاز بھٹو، عبدالحفیظ پیرزادہ، غلام مصطفیٰ جتوئی نے مصلحت اور سمجھوتے کرتے ہوئے راہیں جدا کر لیں لیکن ہالہ کے مخدوم ضیا الحق کے بدترین دور میں بھی بھٹو کی بیٹی کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہے۔ دونوں بڑے مخدوموں کی طبع میں جو انکسار اورعجز تھا وہ ان کی سیاست میں بھی نظر آتا رہا۔
ایم آر ڈی کی تحریک ہو یا دیگر کٹھن سیاسی مرحلے، ہالہ اور سروری جماعت نے ہمیشہ بھٹو فیملی اور پی پی پی کا ساتھ دیا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کی من موجی کے باوجود اس خاندان نے پارٹی نہیں چھوڑی۔
غلام مصطفیٰ جتوئی کا شمار سندھ کے بااثر جاگیرداروں میں ہوتا تھا۔ ان کی موجودگی کو سندھ کے زمیندار اور جاگیردار پیپلزپارٹی میں اپنی نمائندگی سمجھتے تھے اور اس کے ساتھ جُڑے رہتے تھے۔ یہ صورتحال ایم آرڈی کی تحریک کے بعد تبدیل ہوگئی۔ جب جتوئی نے سندھ کے لوگوں کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی۔ انہوں نے نیشنل پیپلزپارٹی کے نام سے الگ پارٹی بنائی لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت ان کے توڑ کے طور پر ہالہ کی مخدوم فیملی کو آگے لے آئی۔ مخدوم خلیق الزمان پارٹی کے سندھ میں صدر مقرر ہوئے۔ مخدوم خلیق نے مشکل دور میں سندھ بھر میں پارٹی کی تنظیم کاری کی۔
بھٹو کی پھانسی کے بعد ضیاالحق سندھ میں اپنی حمایت کی تلاش میں نکلے تو انہوں نے جی ایم سید اور مخدوم طالب المولیٰ سے بھی ملاقات کی۔ چھوٹے مخدوموں کے اصرار کے باوجود انہوں نے ضیا کی حمایت نہیں کی بلکہ ایک تاریخی جملہ کہا ’کبھی بھول کر بھی پارٹی نہیں چھوڑنا۔‘
ضیاالحق کے غیرجماعتی انتخابات میں پنجاب اور سندھ سے کئی سرخیلوں نے حصہ لیا۔ پیپلزپارٹی نے بائیکاٹ کیا لہٰذا مخدوم خاندان نے بھی نتخابات میں حصہ نہیں لیا۔
دسمبر 2013 میں بلدیاتی انتخابات کے موقع پر پارٹی کو محسوس ہوا کہ مسلم لیگ فنکشنل سرگرم ہو رہی ہے، پارٹی کو مخدوم خاندان کی ضرورت پڑی۔ زرداری مخدوم امین فہیم کی دعوات پرہالہ گئے، جہاں مخدوم خاندان کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ زرداری نے مخدوم امین کے ذریعے خلیق کو پارٹی میں دوبارہ آنے کی دعوت دی۔ جو ایم آرڈی کی تحریک کے بعد اختلافات کی وجہ سے سنہ 1988 کے انتخابات کے بعد پارٹی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔
ان کے دوسرے بھائی مخدوم رفیق الزماں جو مشرف دور میں بلدیاتی انتخابات میں ضلع ناظم حیدرآباد تھے، لیکن 2008 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ نہ ملنے کے بعد وہ سیاست سے دور ہو گئے تھے۔ خلیق الزمان اور رفیق الزمان دونوں نے یہ پیشکش قبول کرلی۔ سنہ 2013 کے اتخابات میں مخدوم خلیق الزمان پیپلزپارٹی کے امیدوار کے طور پرجیتے۔
سنہ 2013 کے انتخابات میں جب نواز لیگ جیتی تو پیپلزپارٹی نے امین فہیم کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کیا، وقت نے انہیں پھر لیڈر آف اپوزیشن بنا دیا۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا ’اقتدار کا بھوکا نہیں اور سیاست میں تیز رفتاری سے نہیں چلتا۔‘
وہ منجھے ہوئے پارلیمنٹرین تھے، امین فہیم آٹھ مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پوری سیاسی زندگی میں ایک بار بھی نہیں ہارے۔ اقتدار مسلسل ان کے دروازے پر دستک دیتا رہا۔ وزارت عظمیٰ اور وزارت اعلیٰ سندھ کی پیشکش ہوتی رہی، جنرل مشرف نے بھی انہیں وزارت عظمیٰ کی پیش کش کی تھی۔ تاہم بے نظیر بھٹو کے منع کرنے پر انہوں نے یہ پیشکش ٹھکرا دی اور پارٹی اور اپنے مریدوں کو ترجیح دی۔
سنہ 2018 کے انتخابات کے موقع پردرگاہوں کے گدی نشینوں کا اتحاد بنا۔ پیر پگاڑا کی حر جماعت، ہالہ کے مخدوم کی سروری جماعت، ملتان کے شاہ محمود قریشی کی غوثیہ جماعت کے سربراہان کے رسمی اور غیر رسمی اجلاس بھی منعقد ہوئے۔ اگریہ تینوں روحانی جماعتیں متحد ہو جاتیں توباقی چھوٹی موٹی درگاہوں کے گدی نشین بھی اس میں شامل ہو جاتے، لیکن پیپلزپارٹی نے مخدوم خاندان کو منا کر اس کوشش کو ناکام بنادیا۔ انہیں مٹیاری کی تقریب میں تمام نشستیں دے دی گئیں۔ تین پشتوں سے پیپلزپارٹی جڑے رہنے والے مخدوم کی اس بغاوت نے پارٹی میں یہ پیغام عام کیا کہ پارٹی پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔
پیپلزپارٹی کے ایک پرانے کارکن ذوالفقار قادری کا کہنا ہے کہ ’شہادت سے پہلے جب بے نظیر بھٹو وطن لوٹیں تو بلاول ہاؤس میں ان سے ہم نے پوچھا، مشرف نے آئین میں ترمیم کردی ہے، کوئی بھی تیسری مرتبہ وزیراعظم نہیں بن سکتا، ایسے میں کیا حکمت عملی ہے؟‘ انہوں نے فوراً کہا کہ ’ہمارے پاس وزیراعظم ہے، مخدوم صاحب بیٹھے ہیں نا‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کے وصیت نامے کی تصدیق و توثیق بھی امین فہیم سے کرائی گئی اور فوری اعلان بھی یہی ہوا کہ مخدوم وزیراعظم ہوں گے۔ بعد میں مسلم لیگ نواز کے رہنما خواجہ آصف کے بیان کہ وزیراعظم کا منصب پنجاب کو ملنا چاہیے، کے بعد آصف علی زرداری نے بازی پلٹ دی۔ امین فہیم کے بجائے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنایا گیا۔
ایک تجزیہ نگار نے کیا خوب کہا کہ بے نظیر کے بعد مخدوم امین فہیم کو نہ کوئی سمجھنے والا تھا اورنہ سمجھانے والا۔ وہ سٹیبلشمنٹ سے قریب بھی تھے اور پارٹی اورسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل بھی تھے۔ جس کے ذریعے مذاکرات کیے جاتے رہے، اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کے پاس بھی وہ ایک معتبر اورمعزز شخصیت سمجھے جاتے تھے، بعد کی صورتحال میں آصف زرداری کو مخدوم پر اعتماد نہ تھا، یا پھر وہ ان کی ضرورت نہیں سمجھ رہے تھے۔
سید قائم علی شاہ کے وزارت اعلیٰ کے دور میں تھر میں قحط سالی کی صورت حال یہاں تک جا پہنچی کہ سید قائم علی شاہ کو سندھ کے بااثر مخدوم خاندان کے دو افراد وزیر بحالیات مخدوم جمیل الزماں اور ڈی سی او تھر مخدوم عقیل الزماں کو معطل کرنا پڑا۔ اس سے پارٹی میں بحران پیدا ہو گیا۔ پارٹی کے وائس چیئرمین مخدوم امین فہیم اس وقت بقید حیات تھے ان کو کھلے عام اپنی ناراضی کا اعلان اور اظہار کرنا پڑا، تب خود وزیراعلیٰ کو یہ بیان دینا پڑا کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔
بعد میں جب امین فہیم نے پیر پگاڑا سے ملاقات کی تو آصف زرادری بیچ میں آئے اورسید قائم علی شاہ مخدوم صاحب کے پاس پہنچ گئے اور یوں معافی تلافی ہوگئی، لیکن مخدوم خاندان کی یہ ناراضی آج تک ختم نہیں ہو سکی ہے۔
مخدوم خاندان کو کابینہ سے باہر رکھا گیا، امین فہیم کے بیٹے اور بھائیوں کو پارٹی اور حکومتی عہدوں میں نظرانداز کیا گیا۔
ہالہ میں واقع مخدوم خاندان کی بیٹھک ’اٹھاس بنگلہ‘ سندھ کا سیاسی، ثقافتی اور سماجی مرکز بھی رہی ہے، طالب المولٰی عام لوگوں، اپنے مریدوں اور خلیفوں سے براہ راست رابطہ اور میل جول رکھتے تھے ان کا یہ معمول تھا کہ وہ صبح کھلی کچہری لگاتے اور شام گئے لوٹتے تھے۔ جس کسی کو بھی ملنا ہوتا تھا وہ اس بنگلے پر پہنچ جاتا تھا۔ ان کے بعد اس خاندان نے عوام تک رسائی کا یہ سلسلہ منقطع کردیا۔
یہ خاندان خود کو متحد و منظم بھی نہیں رکھ سکا اور اندرونی خلفشار کا شکار ہوگیا جو سیاسی زوال کی ایک وجہ بنا، صورتحال اس قدر سنگین ہوگئی کہ گذشتہ سال گدی نشین جمیل الزماں نے طالب المولیٰ کی برسی کا پروگرام رکھا تو اپنے چچا کو دعوت تک نہیں دی۔