Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بی بی امر نہ ہوتیں تو آج بھی امر ہونے کی جنگ لڑ رہی ہوتیں‘

جس عمر میں لڑکیاں باپ کے ناز نخرے اٹھانے کے باعث اٹھلا اٹھلا کر چلتی ہیں اور اپنے ہم عمروں سے اٹھکیلیاں کرتی پھرتی ہیں اس عمر میں بینظیر بھٹو کے شب و روز سزائے موت کے قیدی باپ کی جان بخشی کرانے کی تدبیریں کرتے گزرتے۔
بینظیر نے اپنی نوخیزعمر میں والد کے ساتھ ملک ملک کی سیر کی اور جب وہ پاکستان کے سربراہ تھے تو ان کے ساتھ کئی ممالک کے حکمرانوں سے ملاقاتیں کرکے اپنے تدبر اور تمدن کو نئے زاویوں سے ہم آہنگ کیا۔
لیکن یہ بات نہ تو بینظیر کو پتہ تھی اور نہ ہی ان کے والد کو کہ جو تربیت وہ بین الاقوامی درسگاہوں اور عالمی رہنماؤں سے حاصل کر رہی تھیں وہ ان کے باپ کی جان بچانے کے لیے ذرہ بھر کام نہیں آئے گی۔
وہ اپنے باپ کی بقا کی جنگ نہیں جیت سکی اور ایک آمر کے ہاتھوں اس کی پھانسی کا زخم لیے پسپا ہوتی ہوتی جلا وطن ہو گئی۔
جلاوطنی سے لوٹی تو جس قوم کو وہ باپ کی پھانسی کے غم میں چھوڑ کرگئی تھی، وہ قوم اس کی قیادت کی منتظر تھی۔ لیکن قیادت کا یہ فرض نبھانے سے پہلے اسے ایک ایسے شخص کا ساتھ درکار تھا جو ان کی بڑھتی عمر میں اس کی زندگی کا ساتھی بن سکے۔
لیکن بے پناہ ذہانت کی مالک بینظیر شاید قسمت کی دھنی نہ تھی۔

سندھ کے ایک بیٹے سے شادی کر کے اس کو توقع تھی کہ اب اس کی دھرتی پر اس کے قدم مضبوطی سے جم جائیں گے، لیکن ہر گزرتا دن اس کا لوگوں سے تعلق کمزور کرتا گیا۔
اقتدار کی مسند پر پہنچیں تو خواب تھے کہ اپنے لوگوں کی زندگیاں بدل کر خود امر ہو جائیں گی۔ خیال تھا کہ جمہوریت کو باپ کے قتل کے خلاف بہترین انتقام بنائیں گی۔
اس کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں نے اس کو ناکام بنانے کے لیے ’سکیورٹی تھریٹ‘ قرار دیا، لیکن وہ ڈٹی رہی۔
اس کی خواب دیکھتی آنکھیں ابھی پوری طرح وا نہ ہوئی تھیں کہ اس کے شریک حیات کی رنگ برنگی کہانیاں اس کی اور ہر دوسرے فرد کے کانوں سے ٹکرانے لگیں۔ بہت جلد لوگ اس کو بینیظیر کے شوہر نہیں بلکہ ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کے نام سے مخاطب کرنے لگے۔
بینظیر پڑھی مغرب میں تھیں، لیکن پہچان ’دخترمشرق‘‘ کی چاہتی تھیں۔ 
سو نظرانداز کرتی رہی، حتٰی کہ بدعنوانیوں کے قصے اس کے شوہر کی ذات سے ہوتے ہوئے اس کے اپنے ساتھ منسلک ہونے لگے۔

بینظیر بھٹو کو ضیا کے دور میں مقدمات کا سامنا بھی رہا

حکومت چلی گئی تو وہ واپس عوام کے پاس گئیں۔ حزب اختلاف میں بیٹھیں تو عوام کی بات کرتی رہیں۔ پھر حکومت ملی اور پھر وہی ’’ٹین پرسنٹ‘‘ کی کہانیاں۔
اب کے حکومت گئی تو پھر جلاوطنی ملی اور شوہر کو قید۔
ابھی ان کا سیاسی حریف کے ساتھ اقتدار کی بازی کا کھیل جاری تھا کہ ان کی کردار کشی کرکے اپنی پارٹی کی جگہ بنانے والے روایتی سیاسی مخالف نواز شریف کی حکومت کا بستر بھی فوج نے گول کر دیا اور کچھ عرصے بعد وہ بھی جلا وطن ہو گئے۔
بی بی کے حق میں قرعہ ایک مرتبہ پھر نکلنے کو تھا۔ مگر اس سے پہلے اس نے ماضی کے حریف کے ساتھ مخاصمت ختم کرکے ایک بہتر اور خوشگوار مستقبل کے لیے ’میثاق جمہوریت‘ کا عہد باندھ لیا۔
بین الاقوامی دوستوں کی مدد سے وقت کے ایک اور آمر کے ساتھ ایک نئی جنگ میں ایک نیا معاہدہ کرکے وہ وطن لوٹی تو پھر سے امر ہونے کا خواب رچا لیا۔
ان کو کہا گیا کہ جو طے ہوا ہے اس کے مطابق پس منظرمیں رہ کرخوابوں کی تعبیر کے سپنے بنیں۔

بینظیر بھٹو کے والد اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ جنرل ضیا نے مارشل لا لگا کر الٹ دیا تھا: تصویر اے ایف پی

انھوں نے امر ہونے کی جنگ میں پسپائی اختیار کرنے سے انکار کر دیا اور ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو بھرے مجمعے میں خون دے کر ہمیشہ کی زندگی پا لی۔
اور پھر ان کا شوہر ان کی پارٹی، ان کی جائیداد، ان کی اولاد، ان کی ساری زندگی کی جدوجہد کے ثمر کا ’’ہنڈرڈ پرسنٹ‘‘ مالک بن گیا۔
ان کی پارٹی کی حکومت بنی تو وہ صدر بن گیا۔
لیکن پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں اس کے قتل کے اسباب تک کا پتہ نہ لگایا جا سکا۔
آج بی بی امرہے، لیکن اسکی جماعت اس کے خوابوں سے کوسوں دور۔
 اگر وہ ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو امرنہ ہوتی تو شاید اسکی جماعت کے دور میں امریکہ کے حملے سے پہلے ہی اسامہ بن لادن گرفتار ہو چکا ہوتا۔

بینظیر بھٹو دو بار وزیراعظم منتخب ہوئیں لیکن پانچ سالہ مدت پوری نہ کر سکیں: تصویر اے ایف پی

جمہوری حکومت میں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں گورنر راج نہ لگتا، عدلیہ، جس کی بحالی کے لیے بی بی پرچم تھامے سڑکوں پر نکلی تھی، کی حقیقی بحالی کے لیے ایک اور لانگ مارچ نہ ہوتا اور آرمی چیف کو رات گئے فون نہ گھمانے پڑتے۔
 میمو گیٹ سکینڈل بنتا اورنہ ہی دہشت گردی کی جنگ طول پکڑتی۔

بینظیر خودساختہ جلا وطنی کے بعد اکتوبر 2007 میں وطن واپس آئیں: تصویر اے ایف پی

پورا سندھ ’’موہن جو داڑو‘‘ نہ بنتا، پیپلز پارٹی کو لوگوں کو جلسوں میں لانے کے لیے پیسے نہ دینے پڑتے اور نہ ہی یہ نوبت آتی کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہتے کہ
’’حساب کتاب بند کرو، آگے کی بات کرو‘‘
 بی بی امر نہ ہوتی توشاید آج بھی امر ہونے کی جنگ لڑ رہی ہوتی نہ کہ حساب کتاب بند کرنے کی۔  

شیئر: