پاکستان کا سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ
پاکستان کا سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ
منگل 13 اگست 2019 21:24
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انڈیا کے کشمیر سے متعلق غیر آئینی اقدامات سیکیورٹی کونسل لے جانے کا اعلان کیا ہے ۔سیکیورٹی کونسل کے صدر کو خط لکھ دیا۔
ایک وڈیو بیان میں وزیر خارجہ نے بتایا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا ۔پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے ان سفارشات پر غور کیا اور اپنا فیصلہ دیا ۔وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں کابینہ کا خصوصی اجلاس بلوایا گیا جس میں کابینہ نے اس فیصلے کی توثیق کی اور وزارتِ خارجہ کو حکم دیا کہ اس مسئلے کو سیکیورٹی کونسل میں لے جانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
شاہ محمود دقریشی کا کہنا تھا کہ اس حکم کی بجا آوری کے لئے میں نے فیصلہ کیا کہ فی الفور چین جاو¿ں اور چینی حکام سے مشاورت کروں۔چنانچہ بیجنگ گیا مشاورت کا ایک دور مکمل ہوا ہمیں چینی حکام کو قائل کرنے اور اپنا موقف سمجھانے میں کامیابی ہوئی اور انہوں نے پاکستان کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔
’چین یہ سمجھتا ہے کہ انڈیا کا حالیہ اقدام غیر آئینی، یکطرفہ اور جموں و کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے منافی ہے‘۔
شاہ محمو دقریشی نے بتایا کہ اس مشاورت کے بعد، آج میں نے اپنا خط صدر سیکورٹی کونسل کو ارسال کر دیا ہے۔ یہ خط اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے صدر سیکیورٹی کونسل کو بھجوا دیا ۔ ہم نے درخواست کی ہے کہ یہ خط فی الفور کونسل کے تمام اراکین تک پہنچایا جائے۔
اس خط میں درخواست کی ہے کہ سیکیورٹی کونسل کا خصوصی اجلاس طلب کیا جائے اور انڈیا ان اقدامات پر، جنہیں ہم غیر قانونی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی سمجھتے ہیں انہیں زیر بحث لایا جائے۔
ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انڈیاکے ان اقدامات نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کو خطرے میں ڈالا ہے۔
اگر انڈیا یہ سمجھتا ہے کہ وہ طاقت کے ذریعے کشمیریوں کی حق خودارادیت کی تحریک کو کچل دیگا تو یہ اسکی خام خیالی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر جموں و کشمیر میں گزشتہ کئی دہائیوں سے تعینات7 لاکھ فوج کشمیریوں کو زیر نہیں کر سکی تو مزید ایک لاکھ80 ہزار کی کمک بھی ناکام ٹھہرے گی۔
انہوں نے کہا کہ انڈیا کا وہ موقف جسے ان کے وزیر خارجہ مختلف ممالک کے سامنے رکھ رہے ہیں کہ ہم نے یہ اقدام کشمیریوں کی فلاح وبہبود کے لیے اٹھایا ہے۔اگر یہ اقدام کشمیریوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں تو پھر9 دن سے وہاں کرفیو کیوں مسلط کیا گیا ہے؟
اگر یہ بہتری کے اقدامات ہیں تو کل عیدالاضحی کے موقع پر انہیں نماز عید ادا کرنے اور قربانی کا فریضہ سر انجام دینے سے کیوں روکا گیا؟
اگر یہ کشمیریوں کی بہتری کے اقدامات ہیں تو پھر انڈیا کو جمعہ کے دن نہتی عورتوں اور بچوں پر گولیاں کیوں چلانی پڑیں؟۔ پیلٹ گنز کا استعمال کیوں کرنا پڑا ۔آپ کو اپنے چہرے کے سامنے جبروتشدد کی ڈھال کیوں سجانا پڑی؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جن پر اسوقت پوری دنیا میں بحث ہو رہی ہے۔
’اگر انڈیا یہ سمجھتا ہے کہ وہ ان ہتھکنڈوں سے کشمیریوں کی آواز کو دبا کے گا تو یہ اسکی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔
اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ 35اے کے خاتمے سے وہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیگا تو یہ اسکی بھول ہے۔ 35اے کے خاتمے اور ریاست جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے مسلہ حل ہو گیا ہے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ کشمیری اس اقدام کو تسلیم کریں گے اور نہ پاکستان کو یہ قابلِ قبول ہیں۔میں نے اس کا ذکر اس خط میں کر دیا جو صدر سیکیورٹی کونسل کو پہنچ چکا ہے۔
’میں سمجھتا ہوں کہ انڈیا نے یہ اقدام اٹھا کر بہت بڑی حماقت کی ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا یہ آوازیں ان کے اندر سے اٹھ رہی ہیں‘۔ آج انڈیا کا دانشور اور قانون دان یہ تسلیم کر رہا ہے کہ انڈیانے ان اقدامات کے ذریعے ایک نیا سیاہ باب رقم کیا ہے۔ اس سے صورتحال سدھرنے کی بجائے مزید بگڑے گی۔ آج دنیا بھر کا میڈیا ان مظالم کو کیمرے کی آنکھ سے دکھا رہا ہے جو جموں و کشمیر میں ڈھائے جا رہے ہیں۔ ایسے آرٹیکل لکھے جا رہے ہیں جو مودی سرکار کے ان اقدامات کو بھی ہٹلر کی سوچ سے منسلک کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں فاشسٹ اور نازی ازم کا دور دہرایا جا رہا ہے ۔
شاہ محمود قریشی نے یہ بھی کہا کہ آج سابق انڈین وزیر اعظم من موہن سنگھ،سابق وزیر داخلہ چدم برم ، مانی شنکر اور ششی تھرور جیسے لوگوں کی تقاریر لوک سبھا کے ریکارڈ کا حصہ ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ انڈیا کا جو چہرہ آج دنیا دیکھ رہی ہے۔ فاونڈنگ فادرز کا یہ تصور نہ تھا اور وہ اس چہرے سے لا تعلق ہونا چاہتے ہیں۔ وہ وہاں بھی ان اقدامات کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ آج مجھے خدشہ ہے اور اس کا ذکر بھی میں نے اس خط میں کیا ہے کہ انڈیا اپنے زیر کنٹرول کشمیر میں نیا قتل عام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اگر انڈیا یہ سمجھتا ہے کہ اس قتل عام کو پاکستان اور کشمیری عوام خاموشی سے برداشت کریں گے تو یہ بھی ا غلط فہمی ہے۔
جس طرح فروری 2019 میں انڈیانے سیاسی مقاصد کے لئے پلوامہ کا ڈرامہ رچایا جس کے حقائق اب دنیا کے سامنے ہیں مجھے تشویش ہے کہ انڈیا جموں و کشمیر کی صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لیے اس طرح کی کوئی بھی حرکت کر سکتا ہے اور کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدو جہد کو ایک نیا رنگ دے سکتا ہے۔
میں نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یکم اور 6 اگست کو لکھے گئے خطوط ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ میرا 13اگست کو لکھا گیا خط،جو صدر سیکیورٹی کونسل کو موصول ہو چکا ، وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے ۔
’میں انڈیا کو یہ بھی باور کرانا چاہتا ہوں کہ اگر وہ جارحیت کرے گا اور پاکستان خاموش رہے گا تو یہ بھی اسکی غلط فہمی ہے۔ اپنے دفاع میں ہر حد تک جا سکتے ہیں۔ 27فروری کو اسکا عملی مظاہرہ ہو چکا ہے‘۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 14 اگست کو وزیر اعظم عمران خان مظفر آباد جارہے ہیں جہاں وہ ، اپنا ،اپنی حکومت کا اور پاکستان کا موقف آزاد کشمیر کے منتخب نمائندوں کے سامنے رکھیں گے ۔کل پورے پاکستان میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہوگا اور15اگست کو یوم سیاہ ہو گا ۔ دنیا دیکھے گی کہ ہر دارلخلافے میں ان اقدامات کے خلاف آواز بلند ہو گی۔
شاہ محمود قریشی نے آخر میں یہ کہا کہ کشمیریوں کو (وہ خواہ لائن آف کنٹرول کے اس پار ہیں یا اس پار ہیں) انہیںبطور وزیر خارجہ پاکستان یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ تنہا نہیں ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اور ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔