پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے ضلع ننکانہ صاحب میں ایک سکھ لڑکی کے مبینہ طور پر اغوا اور جبری تبدیلی مذہب کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
ننکانہ صاحب میں ایک سکھ لڑکی جگجیت کور کے خاندان نے پولیس میں ایف آئی آر درج کروائی تھی کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب چند مسلح افراد نے جگجیت کور کو اغوا کر کے جبری طور پر ان کا مذہب تبدیل کیا ہے۔
دوسری جانب جگجیت کور عرف عائشہ ولد بھگوان سنگھ کی جانب سے لاہور کی ایک ضلعی عدالت میں حلفیہ بیان جمع کروایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرتے ہوئے محمد ارسلان نامی نوجوان سے نکاح کیا ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/August/37216/2019/screen_shot_2019-08-30_at_4.07.51_pm_copy.jpg)
جگجیت کور کے خاندان کا بیان
سوشل میڈیا پر جگجیت کور کے خاندان کی جانب سے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا گیا تھا جس میں الزام عائد کیا گیا کہ ’رات کو کچھ غنڈے ان کے گھر آئے اور ان کی چھوٹی بیٹی کو گھیسٹ کر لے گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایف آئی آر کٹوائی ہے ’لیکن کسی نے ان کی بات نہیں سنی۔ جب ہم واپس آئے تو وہی لوگ دوبارہ آئے اور دھمکیاں دیں۔‘
انہوں نے وزیراعظم عمران خان اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے اور وہ انہیں انصاف دلائیں اور ان کے خاندان کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
جگجیت کور کے خاندان کا کہنا تھا کہ اگر انصاف نہ فراہم کیا گیا تو وہ 31 اگست کو لاہور میں منعقدہ انٹرنیشنل سکھ کنوینشن کے موقع پر گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاج کریں گے۔
اس ضمن میں ننکانہ صاحب کے سٹی تھانہ میں جگجیت کور کے بھائی منہوہن سنگھ کی جانب سے اپنی بہن کے اغوا کی ایف آئی آر دفعہ 365 بی کے تحت درج کروائی گئی ہے۔
خواتین کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قانون ’پروٹیکشن آف ویمن ایکٹ 2006‘ کے دفعہ 365 بی کے تحت جو شخص کسی عورت کو زبردستی شادی کرنے کی نیت سے اغوا کرتا ہے اسے عمر قید کی سزا اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔