زبیر علی خان، اردو نیوز، اسلام آباد | رائے شاہنواز، اردو نیوز، لاہور
2018 کے عام انتخابات میں مولانا پارلیمانی سیاست سے باہر ہو گئے۔ (فوٹو:اے ایف پی)
مولانا فضل الرحمان پاکستان کے سیاسی افق کا وہ ستارہ ہیں جو اپنے بارے میں کہتے ہیں ’ان کے بغیر حکومت بنے گی نہیں اور اگر بنی تو حکومت چلے گی نہیں‘۔
وہ پاکستان کے مذہبی سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد مفتی محمود پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا (اس وقت شمال مغربی سرحدی صوبہ) کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔
انہوں نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز اپنے والد مفتی محمود کے انتقال کے بعد 1980 میں جمیعت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل کے طور پر کیا۔ 1980 میں ہی جمیعت علمائے اسلام دو دھڑوں میں تقسیم ہوئی تو وہ جمیعت علمائے اسلام (ف) گروپ کے سربراہ بن کر سامنے آئے۔
مولانا فضل الرحمان نے پارلیمانی سیاست کا آغاز 1988 سے کیا اور پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1990 کے عام انتخابات میں حصہ لیا لیکن کامیاب نہ ہوسکے جبکہ 1993 کے عام انتخابات میں ایک بار پھر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
ان کو پاکستان کے سیاسی افق پر اس وقت پذیرائی ملی جب انہوں نے بے نظیر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عورت کی حکمرانی کو حرام قرار دیا۔ بعدازاں وہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ہی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ بن گئے۔
مخالفین انہیں مولانا ڈیزل کے نام سے کیوں پکارتے ہیں؟
مولانا فضل الرحمان پر ان کے سیاسی مخالفین ڈیزل پرمٹ ملنے اور افغانستان سمگلنگ کرنے کے الزام عائد کرتے رہے ہیں لیکن اس حوالے سے ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل سکا تاہم سیاسی مخالفین بالخصوص وزیراعظم عمران خان مولانا ڈیزل کے نام سے پکارتے ہیں۔
وہ 1997 کے عام انتخابات میں میدان میں اترے تو کامیاب نہ ہوسکے۔ 2001 میں افغانستان کے خلاف پاکستانی ہوائی اڈے امریکہ کو فراہم کرنے پرمولانا فضل الرحمن اس وقت کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر کڑی تنقید کرتے رہے اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کے حملے کے رد عمل میں جہاد کے اعلان اور حکومت گرانے کی دھمکیاں دیتے رہے جس کے نتیجے میں انہیں نظر بند کر دیا گیا اور ان پر فوج کے خلاف عوام کو اکسانے اور حکومت گرانے کے مقدمات بھی درج ہوئے تاہم 2002 میں تمام مقدمات واپس لے لیے گئے۔
متحدہ مجلس عمل کی تشکیل اور ’ڈمی اپوزیشن‘
2002 میں چھ مذہبی سیاسی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے عام انتخبات میں حصہ لیا۔ جس میں مولانا فضل الرحمان تیسری بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر بھی سامنے آئے لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔
اسی دور حکومت میں انہوں نے 17ویں آئینی ترمیم ایل ایف او (لیگل فریم ورک) کے حق میں ووٹ دیا جس کے تحت 1999 کے جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ نظام کو قانونی سہارا ملا اور ان کے وردی میں رہتے ہوئے بطور چیف ایگزیکٹو کام کرنے سمیت متعدد قوانین کی منظوری دی گئی۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے 17ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کی تھی۔ ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان پر ڈمی حزب اختلاف کے الزام بھی عائد ہوتے رہے۔
وہ 2004 سے 2007 تک قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف رہے لیکن بلوچستان میں مسلم لیگ ق کے ساتھ مل کر حکومت بنائی جس کے بارے میں جے یو آئی ف نے موقف اپنایا کہ انہوں نے ایسا صوبے میں گورنر راج کے خدشے کے پیش نظر کیا تھا۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں ہی سرکاری اراضی الاٹ ہونے کا معاملہ سامنے آیا جس میں فوج کے شہدا کے لیے مختص 1200 ایکڑ اراضی مولانا فضل الرحمان اور ان کے ساتھیوں کے نام الاٹ ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا۔
2018 کے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے اس کیس کو نیب بھیجنے کا اعلان بھی کیا تاہم اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
2008 میں پاکستان کے سیاسی نظام پر چھائے آمریت کے سائے چھٹنے لگے۔ عام انتخابات کا اعلان ہوا تو متحدہ مجلس عمل میں شامل سیاسی جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا لیکن مولانا فضل الرحمان نے متحدہ مجلس عمل کو خیرآباد کہا اورعام انتخابات میں حصہ لینے سیاسی میدان میں اتر گئے۔
کشمیر کمیٹی کے چیئرمین
2008 کے انتخابات کے بعد جے یو آئی ف پیپلز پارٹی حکومت کی اتحادی بنی اور مولانا فضل الرحمان کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین نامزد کر دیا گیا۔
2013 کے عام انتخابات میں وہ ایک بار پھر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور اس بار بھی ان کی جماعت حکومتی اتحادی بن کر سامنے آئی۔
سابق وزیراعظم نوازشریف نے مولانا کو وفاقی وزیر کی حیثیت کے ساتھ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین نامزد کیا۔ وہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے دور میں بھی کمشیر کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر کام کرتے رہے۔
تحریک انصاف اور جے یو آئی ف کے درمیان فاصلے
2013 کے انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف مقبول سیاسی جماعت ابھر کر سامنے آئی تو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پارٹی قیادت کو تمام سیاسی جماعتوں سے حکومت بنانے کے لیے رابطے کرنے کی ہدایت کی ماسوائے جے یو آئی ف کے۔ جس کے بعد تحریک انصاف اور جے یو آئی ف کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوتا گیا۔
مولانا نے خیبر پختونخوا حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے حزب اختلاف کی جماعتوں سے رابطے بھی کیے لیکن صوبے میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
2018 کے انتخابات سے قبل مولانا نے مذہبی سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر اکٹھا کیا اور متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے ساتھ عام انتخابات میں اترے۔ لیکن 2018 کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر کامیاب نہ ہوسکے اور پارلیمانی سیاست سے باہر ہو گئے۔
انتخابی نتائج کے فورا بعد ہی مولانا فضل الرحمان نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا اور تمام اپوزیشن جماعتوں سے اسمبلی میں حلف نہ اٹھانے کا مطالبہ کیا لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں نے ان کی یہ تجویز مسترد کر دی۔
صدارتی انتخاب کا وقت آیا تو مسلم لیگ اور دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کو متفقہ صدرارتی امیدوار نامزد کیا لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے ان کی بطور صدارتی امیدوار مخالفت کی اور اعتزاز احسن کو تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی کے مقابلے میں صدارتی امیدوار نامزد کیا۔
مولانا نے تحریک انصاف حکومت کے خلاف حزب اختلاف کی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی جدوجہد جاری رکھی اور حکومت مخالف تحریک چلانے کے لیے کُل جماعتی کانفرنس بھی طلب کی۔
اس کل جماعتی کانفرنس نے ایوان بالا میں تبدیلی لانے کا بیڑا اٹھایا اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا۔
حزب اختلاف کی جماعتیں عددی تعداد پوری ہونے کے باوجود چیئرمین سینیٹ کو تبدیل نہ کروا سکیں اور ایک بار پھر انہیں حکومتی اتحاد کے سامنے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
کیا دھرنا مولانا کو نئی سیاسی زندگی بخشے گا؟
پاکستان میں جہاں سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور رہنما مختلف نوعیت کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ایسے میں مولانا فضل الرحمان حزب اختلاف کے ابھرتے ہوئے سیاستدان کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔
ان کے سیاسی کریئر میں سڑکوں پر احتجاجی تحریک شامل نہیں لیکن اس بار مولانا نے حکومت مخالف بھرپور احتجاجی تحریک کا اعلان کر رکھا ہے۔
مولانا کے اس احتجاج کا اولین مطالبہ وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ ہے جس پر حزب اختلاف کی دیگر جماعتیں کچھ تذبذب کا شکار ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے اس بار حکومت مخالف آزادی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے اور وہ 31 اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دینے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ حزب اختلاف کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ان کی اس تحریک کی حمایت کا اعلان کیا ہے لیکن پیپلز پارٹی اس احتجاج میں شرکت کے حوالے سے کھل کر سامنے نہیں آئی جبکہ مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف نے جے یو آئی ف کے سربراہ کا اسلام آباد میں استقبال کا اعلان کر رکھا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے بغیر بننے والی حکومت چلتی ہے یا مولانا کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں