پاکستان کی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کا قیمتی گلابی نمک مناسب مارکیٹنگ اور برانڈنگ نہ ہونے کے باعث بین الاقوامی مارکیٹ میں غیر ملکی برانڈز کے تحت فروخت کیا جا رہا ہے۔
وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں بتایا ہے کہ پاکستان نے رواں سال قریباً 92،752 میٹرک ٹن نمک برآمد کیا جس کی مالیت دو ارب 15 کروڑ روپے تھی۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال پاکستان نے ایک ارب 98 کروڑ روپے میں ایک لاکھ پانچ ہزار میٹرک ٹن نمک برآمد کیا تھا۔ قومی اسمبلی کو یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان نے سن 2016 میں ایک ارب 80کروڑ روپے کا دو لاکھ میٹرک ٹن نمک برآمد کیا تھا۔
مزید پڑھیں
-
نمک کا زائد استعمال آپ کی جان لے سکتا ہے؟Node ID: 363296
-
اسرائیل میں” دنیا کا سب سے بڑا نمک کا غار دریافت“Node ID: 412166
-
’پاکستانی نمک کو عزت دو‘ مگر یہ عزت کیسے ملے گی؟Node ID: 422301
رکن قومی اسمبلی اسما قدیر نے وزرات تجارت سے دریافت کیا تھا کہ کیا یہ درست ہے کہ پاکستان کے پاس گلابی نمک جو کہ دنیا میں گلابی ہیرا کے نام سے معروف ہے کے دنیا میں سب سے زیادہ ذخائر ہیں مگر اس کو خام صورت اور معمولی قیمت پر برآمد کیا جا تا ہے؟
اس سوال کے جواب میں وزارت تجارت نے تسلیم کیا کہ پاکستان کا گلابی نمک دنیا بھر میں خام شکل میں یا غیر ملکی برانڈز کے تحت فروخت کیا جاتا ہے۔
حکومت کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے کاروباری افراد نے ابھی تک اپنا کوئی برانڈ تیار نہیں کیا ہے۔ وزارت تجارت نے مزید بتایا کہ’ بین الاقوامی منڈیوں میں مصنوعات کے معیار کو سب سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے اور پاکستان میں بہترین بین الاقوامی روایات کے مطابق معیار کی توثیق کے بارے میں آگاہی کی کافی کمی ہے۔
وزارت تجارت نے کہا کہ ویلیو ایڈڈ نمک کی مصنوعات کی برآمدات بڑھانے کے لیے حکومت خوردنی نمک کی کان کنی اور تیاری میں استعمال ہونے والی مشینری اور آلات کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کم کرنے پر غور کرے گی اور اس سلسلے میں فریقین کے ساتھ اجلاس بھی منعقد کیے گئے ہیں۔
حکومت نے بتایا کہ پاکستان میں نمک کا جدید کرشنگ پلانٹ لگانے کے لیے نجی شعبے کی دو فرمز کے ساتھ مشترکہ منصوبے کی شرائط کو حتمی شکل دینے کا عمل پاکستان منرل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن میں جاری ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں نمک کی ایک نمائش منعقد کرانے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
واضح رہے کہ رواں برس جون میں سوشل میڈیا پر صارفین نے کھیوڑہ کے گلابی نمک کے حوالے سے ایک ٹرینڈ ’ہمارا نمک ہمارا سرمایہ‘ کے نام سے چلایا تھا جس میں 70 ہزار سے زائد صارفین نے حصہ لیا تھا۔
ٹوئٹر صارفین جہلم میں کھیوڑہ کی پہاڑیوں سے نکلنے والے گلابی نمک کی تعریفوں کے ساتھ ساتھ یہ مہم بھی چلائی رہے تھے کہ انڈیا کو ’کوڑیوں کے بھاؤ‘ نمک کی فروخت بند کی جائے اور پاکستان نمک کو خود تیار کرتے ہوئے یورپی ممالک کو فروخت کر کے زرمبادلہ کمائے۔
اس بحث کا حصہ بنتے ہوئے جہلم سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے یہ اعلان کیا تھا کہ انڈیا کو نمک کی سستے داموں فروخت کے حوالے سے وہ تحقیقات کا حکم دے چکے ہیں اور رپورٹ جلد سب کے سامنے پیش کی جائے گی، تاہم بدھ کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایسی کوئی رپورٹ پیش نہیں ہوئی۔
پاکستان میں کھیوڑہ سالٹ مائنز کے پروجیکٹ ڈائریکٹر تنویر اشرف نے اُس وقت ’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’انڈیا کو نمک کی درآمد بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ اگر پاکستان اپنا نمک برآمد نہیں کرے گا تو یہ ملک میں پڑا پڑا خراب ہو جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت ملک میں فیکٹریاں لگائے، لوگوں کی تربیت کرے اور کاروباری لوگوں کو قرضے دے تاکہ خام نمک یہاں ہی تیار ہو۔‘
تنویر اشرف کے بقول ایک اندازے کے مطابق پاکستان انڈیا کو چار روپے 80 پیسے فی کلو کے حساب سے نمک فروخت کرتا ہے اور انڈیا یہ نمک یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں ساڑھے چار سے پانچ سو روپے میں فروخت کرتا ہے مگر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انڈیا نمک کو پروسس کرنے پر بھی پیسے لگاتا ہے، وہاں فیکٹریاں ہیں، کاریگر ہیں۔ پاکستان میں کیا ہے؟ یہاں نہ ہی صنعت ہے اور نہ ہی ہنر مند افرادی قوت۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان سے صرف انڈیا ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی دیگر ممالک کو بھی خام نمک برآمد کیا جاتا ہے، اگر ہم نے محنت کی ہوتی تو لوگ ہمارے نمک سے پیسے نہ کما رہے ہوتے۔‘
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں