ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کچھ لوگ سچ بولنے کے بجائے خود کو ایماندار ظاہر کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔
امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن کی شائع کردہ تحقیق کے مطابق خود کو بے ایمان ظاہر نہ ہونے دینے کی کوشش جھوٹ بولنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
محقق شوہم کوشن ہلیل کا کہنا ہے کہ ’بہت سے لوگ اپنی ساکھ کے بارے میں اور اس بارے میں کہ ’لوگ کیا کہیں گے‘ جیسی باتوں کی بہت زیادہ پرواہ کرتے ہیں اور بعض اوقات انہیں اس کی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
ملازمت کے پہلے روز کیا کرنا چاہیےNode ID: 455746
-
’پتہ وتہ کچھ نہیں، باتیں کرنے کو تیار ہیں‘Node ID: 455851
-
’میری پیاری اب کسی اور کی ہو گئی ہے‘Node ID: 455946
تحقیق اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ میں کی گئی اور اس میں زیادہ تر وکیلوں کو شامل کیا گیا۔
اسرائیل میں 115 وکیلوں پر کی گئی ریسرچ میں انہیں کہا گیا کہ وہ اپنے سائلین کو بتائیں کہ ان کے کیس پر 60 سے 90 گھنٹوں کے برابر لاگت آئے گی، جب کہ سائلوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وکیل نے اپنے دفتر میں کتنے گھنٹے کام کیا تھا۔
اس کے لئے وکلا کے دو گروپ تشکیل دیے گئے۔ ایک گروپ کو کہا گیا کہ وہ بتائے کہ اس نے 60 گھنٹے کام کیا، جبکہ دوسرے کو گروپ کو کہا گیا کہ وہ بتائے کہ اس نے 90 گھنٹے تک کام کیا۔
پہلے گروپ کے شرکا میں سے 17 فیصد ایسے تھے جنہوں نے کام تو 60 گھنٹے کیا لیکن خود کو ایماندار ظاہر کرنے کے لیے کام کا دورانیہ کم بتایا اور اس طرح 90 گھنٹوں والے گروپ میں 18 فیصد افراد نے جھوٹ بولا۔
امریکہ میں کیے گئے ایک اور تجربے میں قریب 201 شرکا کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک گروپ کو کہا گیا کہ فرض کریں کہ وہ کسی ایسی کمپنی میں کام کرتے ہیں جو ماہانہ 300 میل سفر کرنے کی رقم ادا کرتی ہے۔ دوسرے گروپ کو کہا گیا کہ وہ تصور کریں کہ ان کی کمپنی 400 میل سفر کے پیسے ادا کرتی ہے۔ ان دونوں گروپوں نے بھی اپنی ساکھ بنانے کے لیے اصل بات کو چھپایا، حالانکہ انہیں اس سے نقصان ہوا۔
-
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں