Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میں چاہتا ہوں کہ افغانوں کو امن نصیب ہو‘

افغان طالبان نے بھی حملوں میں کمی کا اعلان کیا ہے (فوٹو: روئٹرز)
افغانستان میں 21 اور 22 فروری کی درمیانی شب سے کابل کی حکومت اور افغان طالبان کی جانب سے تشدد میں کمی پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔
سات دن کے لیے تشدد میں کمی کا منصوبہ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پایا تھا جس کا مقصد 29 فروری کو ہونے والے امن معاہدے پر دستخط سے پہلے افغانستان میں ماحول کو پرامن بنانا ہے۔
افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے گذشتہ رات قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ ان کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے سات دن میں تشدد میں کمی کے منصوبے پر مکمل طور عملدرآمد کیا جائے گا۔ 
تاہم رپورٹس کے مطابق افغان وزارت داخلہ کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں سے طالبان کے حملے رپورٹ ہوئے ہیں۔
افغان حکومت کی جانب سے سات دن تشدد میں کمی کے منصوبے کو خوش آمدید کہا گیا ہے لیکن افغان عوام سات دن کے لیے تشدد میں کمی کو کیسے دیکھ رہے ہیں اور وہ افغان حکومت، طالبان اور عالمی طاقتوں سے کیا چاہتے ہیں، اس وقت یہ سوال کافی اہمیت حاصل کر چکا ہے۔
ارود نیوز سے بات کرتے ہوئے متعدد افغان شہریوں نے اس کو ایک اچھا اقدام تو قرار دیا ہے تاہم وہ مستقل امن کے خواہاں ہیں۔
اس بارے میں کابل میں بین الاقوامی امور کی ماہر گلالئی لیمہ کہتی ہیں کہ ’میں کسی بھی شکل میں امن کو خوش آمدید کہوں گی کیونکہ امن آج کی ضرورت ہے۔‘

احمد آغا کے بقول افغانستان کے شہری تشدد میں کمی نہیں، سیز فائر چاہتے ہیں (فوٹو: روئٹرز)

لیمہ کے مطابق ’تشدد میں سات دن کی کمی ایک اچھا اقدام ہے تاہم یہ مبہم ہے۔ ہماری سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ اس کے بعد نتیجہ کیا ہوگا؟‘
ان کے بقول ’اگر افغان حکومت اور طالبان مذاکرات کے لیے بیٹھتے ہیں تو پھر حال ہی میں ہونے والے انتخابی عمل کا فائدہ کیا ہوا، یہ میرے ذہن میں ایک سوال ہے لیکن پھر بھی ہمیں امن کی ضرورت ہے۔ ایسا امن جس میں تشدد نہ ہو، سیاسی عدم استحکام نہ ہو اور جس میں انسانی حقوق کو تحفظ اور احترام دیا جائے۔‘
صحافی رحمت اللہ افغان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں چاہتا ہوں کہ تشدد میں کمی کا یہ ہفتہ آرام سے گزرے اور ہمیں امن نصیب ہو۔‘
ان کے بقول ’دونوں فریقین کو چاہیے کہ تشدد میں کمی کے حوالے سے اصولوں کی پاسداری کریں۔ ایک غیر جانبدار کمیٹی اس کی نگرانی کرے۔ ہم اس اقدام سے بہت پُرامید ہیں اور یہ توقع کر رہے ہیں کہ یہ امن کا ہفتہ ہوگا اور یہ آگے سیز فائر کے لیے راستہ ہموار کرے گا۔‘
تاہم سیاسی امور کے ماہر احمد آغا کہتے ہیں کہ افغانستان کے شہری تشدد میں کمی نہیں بلکہ سیز فائر چاہتے ہیں۔

اشرف غنی کے بقول تشدد میں کمی کے منصوبے پر عمل درآمد ہوگا (فوٹو: روئٹرز)

وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے تو تشدد میں کمی کی وضاحت کی جائے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ آیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ماضی میں اگر یہ لوگ 100 افراد کو قتل کرتے تھے تو اب 90 کو ماریں گے۔ تشدد میں کمی کے منصوبے سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہ لوگ آگے جنگ کی صورتحال رکھنا چاہتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ ویسے بھی آج کل جنگ کا موسم نہیں، یہاں افغانستان میں برفباری ہے، سردی بہت ہے اور بہت سارے علاقوں میں لڑائی نہیں ہے تو اس لیے  بھی تشدد کم ہوا ہے۔‘
احمد آغا زیادہ پرامید نظر نہیں آرہے، وہ کہتے ہیں اگر کوئی نتیجہ آتا ہے تو وہ بھی بہت محدود ہوگا۔
امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے کے لیے مذاکرات کے مختلف دور ہوئے جس کے بعد دونوں فریقین اس بات پر متفق ہوئے کہ پہلے تشدد میں کمی کی جائے گی اور اس کے بعد امن معاہدے پر دستخط ہوں گے۔

طالبان کے مطابق ان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کیا جائے گا (فوٹو: ٹوئٹر)

گذشتہ روز دونوں فریقین نے اعلان کیا کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر 29 فروری کو دستخط ہوں گے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد ان کے پانچ ہزار قیدی رہا کیے جائیں گے جس کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہوں گے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بین الافغان مذاکرات کسی چیلنج سے کم نہیں ہوں گے اور مذاکرات کا اصل مرحلہ یہیں سے شروع ہوگا۔

شیئر: