Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف کی ضمانت: ’حتمی فیصلہ عدالت کا ہی ہوگا‘

نواز شریف نے 23 دسمبر کو سزا معطلی میں اضافے کے لیے نئی درخواست دی (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف اس وقت لندن میں زیر علاج ہیں تاہم العزیزیہ ریفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کی سزا معطلی جو کہ دو ماہ کے لیے کی گئی تھی کو اس وقت ختم ہوئے بھی دو ماہ ہونے کو ہیں۔
قانونی اعتبار سے اس معاملے پر کئی سوالات اب حل طلب ہو چکے ہیں کیونکہ پنجاب حکومت نے نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
 اردو نیوز نے اس حوالے سے مختلف قانونی ماہرین سے بات کر کے اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے کہ سابق وزیراعظم کی پوزیشن اس وقت کیا ہے۔ 
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 29 اکتوبر2019  کو نواز شریف کی درخواست پر فیصلہ کرتے ہوئے ان کی سزا دو ماہ کے لیے معطل کرتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا تھا اور پنجاب حکومت کو ہدایت کی تھی کہ اس کے بعد اس سزا میں مزید معطلی کا فیصلہ صوبائی حکومت کرے گی۔
 تکنیکی اعتبار سے 29 دسمبر 2019 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دیا جانے والا ریلیف ختم ہونا تھا کہ 23 دسمبر 2019 کو سابق وزیر اعظم نے اپنے وکیل خواجہ حارث کے ذریعے پنجاب حکومت سے سزا معطلی میں اضافے کے لیے نئی درخواست دی جسے پنجاب حکومت نے رد کر دیا۔
 پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’نواز شریف کے ڈاکٹر کی جانب سے چار مرتبہ نامکمل رپورٹس بھیجی گئی ہیں جن سے اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ ان کی بیماری کی شدت ابھی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ساری رپورٹس ان رپورٹس سے مطابقت رکھتی ہیں جب نواز شریف بیرون ملک روانہ ہوئے تھے یعنی ان کے علاج میں تھوڑی سی بھی پیش رفت نہیں ہوئی۔ پنجاب حکومت نے چیف سیکرٹری کی سربراہی میں کمیٹی بنائی تھی جس نے ان رپورٹس کا جائزہ لیا اور نواز شریف کے وکیل اور ذاتی معالج سے بھی مسلسل رابطے میں رہی۔ درخواست کا فیصلہ اب ہو چکا ہماری نظر نواز شریف کو اخلاقی، قانونی اور تکنیکی بنیادوں پر مزید ضمانت نہیں دی جا سکتی۔‘ انہوں نے بتایا کہ فیصلہ میرٹ پر کیا گیا ہے۔

 پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت کے مطابق نواز شریف کو مزید ضمانت نہیں دی جا سکتی (فوٹو: اے پی پی)

معروف قانون دان حامد خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس معاملے میں غیر ضروری طوالت ہو چکی ہے جو وقت اسلام آباد ہائی کورٹ نے دیا تھا وہ کب کا ختم ہو چکا، اب یہ معاملہ ایک دفعہ پھرعدالت کے روبرو ہی جائے گا۔ عدالت ان تمام رپورٹس کا جائزہ لے گی اور حکومتی اعتراضات کو دیکھے گی۔ اس کے بعد سزا میں مزید معطلی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ہو گا۔‘
حامد خان سمجھتے ہیں کہ چونکہ حکومت نے مقررہ وقت پر فیصلہ نہیں کیا تھا اب جب کیا ہے تو اس صورت حال کی مزید تشریح عدالت ہی کر سکتی ہے۔
 سابق اٹارنی جنرل اور مسلم لیگ ن کے رہنما اشتر اوصاف اس معاملے کو دوسرے انداز سے دیکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’نواز شریف کی سزا اب اس وقت تک معطل ہی تصور ہوگی جب تک عدالت سے دوبارہ رجوع نہیں کیا جاتا۔‘
’ایک بات تو خود حکومت نے حل کر دی کہ وہ ضمانت خارج کروانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرے گی، اگر نہ بھی کرے تو نواز شریف بھی عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں اور حکومت اپنے فیصلے سے عدالت کو بھی مطمئن کرے گی، لیکن فریقین کے پاس اپنے موقف کے دفاع کا مکمل موقع ہو گا۔ عدالت کے حتمی فیصلے تک نواز شریف کی سزا معطل ہی تصور ہو گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’حکومت نے جو کمیٹی بنائی تھی اسے کوئی عدالت تسلیم نہیں کرے گی کیونکہ نواز شریف کی جو بھی رپورٹس حکومت کو بھجوائی گئی تھیں ان پر فیصلہ سرکاری افسر نہیں کر سکتے۔‘
’اس کے لیے قانون کے مطابق ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دینا چاہیے تھا اور اس میڈیکل بورڈ کی تکنیکی رائے پر محکمہ داخلہ یا دیگر سرکاری افسران فیصلہ کر سکتے تھے۔ حکومت نے جو طریقہ کار اختیار کیا کہ ہر رپورٹ پر کہہ دیتے ہیں کہ نامکمل ہے ایسا کرنے کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے یہ اختیار میڈیکل بورڈ کا ہوتا ہے۔‘

عدالت نے نواز شریف کی سزا دو ماہ کے لیے معطل کرتے ہوئے معاملہ نمٹایا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بظاہر معاملہ سیدھا تھا لیکن اب جس طریقے سے اسے چلایا گیا ہے یہ اب عدالت میں ہی حل ہوتا نظر آرہا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر سمجھتے ہیں کہ پنجاب حکومت کی جانب سے ضمانت نہ دینے کے فیصلے سے اب گیند دوبارہ عدالت کی کورٹ میں چلی گئی ہے۔
 ان کے مطابق ’اس معاملے نے عدالت میں ہی حل ہونا تھا اور اب عدالت ہی اسے حل کرے گی۔‘
محکمہ داخلہ پنجاب کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کی طرف سے آخری میڈیکل رپورٹ پانچ فروری کو موصول ہوئی تھی اس کے بعد ان سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بھی سوال جواب کیے گئے اور وہ کسی بھی بات کا جواب نہیں دے سکے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں