ہواوے انٹرنیٹ کی فائیو جی سروس مہیا کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
دنیا کی 30 سے زائد ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام کمپنیوں کے اتحاد نے فائیو جی سسٹم کی فراہمی کسی ایک مخصوص سپلائر سے مشروط کرنے پر اعتراض کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین کی ہواوے اور یورپ کی نوکیا اور اریکسن کا شمار فائیو جی ٹیکنالوجی فراہم کرنے والی بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے جبکہ ہواوے انٹرنیٹ کی فائیو جی سروس مہیا کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔
’فائیو جی‘ ڈیٹا ڈاؤن لوڈ یا اپ لوڈ کرنے کی تیز ترین انٹرنیٹ سروس سمجھی جاتی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق 31 ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اتحاد نے ایسا فائیو جی سسٹم متعارف کروانے پر زور دیا ہے جو کسی ایک مخصوص کمپنی کے آپریٹنگ سسٹم پر منحصر ہونے کے بجائے دیگر کے ساتھ بھی مطابقت رکھتا ہو۔
اتحاد کے ڈائریکٹر ڈائین رینالڈو کا کہنا ہے کہ فائیو جی ٹیکنالوجی فراہم کرنے والے کسی مخصوص سپلائر کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے علاوہ دیگر آپشنز بھی موجود ہیں۔
کمپنیوں کا یہ اتحاد ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب صدر ٹرمپ نے ہواوے کمپنی پر جاسوسی کا الزام لگاتے ہوئے اس کی مصنوعات کے استعمال پر پابندی لگا رکھی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے اتحادی ممالک پر بھی دباؤ ڈالا تھا کہ وہ چین کی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے پر پابندی لگائیں۔ صدر ٹرمپ نے ہواوے کمپنی کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام ممالک کو متنبہ کیا تھا کہ امریکہ ان کے ساتھ حساس معلومات کا تبادلہ نہیں کرے گا۔
دنیا کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں مائکروسافٹ، گوگل، آئی بی ایم اور سسکو بھی اتحاد کا حصہ ہیں، جبکہ موبائل آپریٹرز میں امریکی اے ٹی اینڈ ٹی اور ویرازون کے علاوہ یورپی ووڈا فون، راکوٹن اور ٹیلیفونیکا شامل ہیں۔
رینالڈو نے اے ایف پی کو بتایا کہ اتحاد کا مقصد کسی ایک کمپنی کے خلاف خدشات کا اظہار نہیں بلکہ فائیو جی تیکنالوجی کی فراہمی میں کسی ایک کمپنی کی اجارہ داری کو روکنا ہے۔
رینالڈو کا کہنا تھا کہ کمپنیوں کا یہ اتحاد امریکی حکومت کی مدد سے پرائیویٹ موبائل نیٹ ورکس کے فروغ میں بھی مدد کر رہا ہے تاکہ فائیو جی ٹیکنالوجی کی فراہمی دیگر نیٹ ورکس کے ذریعے بھی ممکن ہوسکے۔
اتحاد کے مطابق اکثر موبائل نیٹ ورکس کو کسی ایک مخصوص کمپنی کا ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئراستعمال کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جبکہ اوپن سسٹم کے تحت کسی بھی کمپنی کا ہارڈ ویئر یا سافٹ ویئر استعمال کرنے کی آزادی ہوگی۔
رینالڈو کا کہنا تھا کہ جاپان، انڈیا اور دیگر ممالک میں فور جی اور فائیو جی نیٹ ورکس اوپن سسٹم کے تحت ہی نصب کیے گئے ہیں۔
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں