Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مئی کے آخر تک مریضوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہوگا۔ فائل فوٹو: روئٹرز
اس لائن کی شان نزول کیا ہے، یہ تو یاد نہیں لیکن دیہی پنجاب سے جنم لینے والے اس جملے کا ادب، مزاح اور روزمرہ کی زندگی میں استعمال فراوانی سے ہوتا آیا ہے۔
دل جلوں نے ازراہ تفنن، اسے پنجاب پولیس کی چھیڑ بھی بنا رکھا ہے۔ تاہم اب  لگتا یہ ہے کہ بات چھیڑ چھاڑ سے آگے بڑھ چکی ہے اور یہ جملہ بڑی سنجیدگی سے ہماری قومی پالیسی کا روپ دھارنے لگا ہے۔
اس ہفتے نیشنل کوارڈینیشن کمیٹی کے لاک ڈاؤن میں نرمی کے اعلان اور صوبوں کی جانب سے اس فیصلے کی توثیق کے بعد پہلا خیال جو ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ جیسے ساری قوم سے کہہ دیا گیا ہو کہ ’جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا‘۔
ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان میں کورونا کی اٹھان کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ حکومت کے اپنےاعداد و شمار چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ مئی کے آخر تک مریضوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہوگا۔ ملک کی تمام قیادت کو معلوم ہے کہ ایسے میں لاک ڈاؤن نرم کرنا ایک گیم چینجر فیصلہ ہے جو بہت مہنگا بھی پڑ سکتا ہے۔
اگر ہم یہ مان لیں کہ ملک میں کبھی حقیقی مکمل لاک ڈاؤن ہوا ہی نہیں، تب بھی جتنا آدھا تیتر آدھا بٹیر لاک ڈآؤن رہا وہ کافی حد تک موثر رہا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی صورت میں لاک ڈاؤن بہت طویل عرصے تک نہیں کھینچا جا سکتا تھا۔ ممکن ہی نہیں کہ کروڑوں لوگوں کو گھروں میں بند کر کے چند مہینے باہر نہ آنے دیا جائے۔ اس پوری مشق کا مقصد  صرف اتنا تھا کہ مزید وقت مل جائے اور اس دوران زیادہ سے زیادہ ٹیسٹنگ کر کے کیسز کا تعین کر لیا جائے۔

اس ہفتے نیشنل کوارڈینیشن کمیٹی کا لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان اور صوبوں کی جانب سے اس فیصلے کی توثیق ہوئی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں کو علیحدہ کر کے خصوصی توجہ دی جائے اورجوں جوں علاقے کلیئر ہوتے چلے جائیں وہاں لاک ڈاؤن میں نرمی ہوتی چلی جائے۔ اس کو سمارٹ لاک ڈاؤن یا ٹارگٹڈ لاک ڈاؤن کا نام دیا گیا۔
سمارٹ لاک ڈاؤن کی وہ گاڑی جو زیادہ سے زیادہ ساتھ ٹیسٹنگ سے مشروط تھی، وہ تو اب چھوٹ چکی ہے۔ جب کہ معاشی سرگرمیوں کی بندش کے ساتھ تاجر برادری کا جو دباؤ پیدا ہوا، اس کے بعد بندشوں کا ختم ہونا بس دنوں کی ہی بات تھی۔
یہاں جو بات غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ ڈھائی مہینے کی محاذ آرائی کے بعد، اب سندھ بھی اسلام آباد کےفیصلوں کا 100 فیصد اطلاق کرنے کو تیار ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مکمل ہم آہنگی سے ہماری قومی حکمت عملی تبدیل ہو چکی ہے اور سب صوبوں کی قیادت اس فیصلے میں شریک ہے۔

اب سندھ بھی اسلام آباد کےفیصلوں کا 100 فیصد اطلاق کرنے کو تیار ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

پہلے ہمارا فوکس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا تھا، اب سٹریٹجی یہ ہے کہ جوں جوں مریض آتے چلے جائیں گے ان کو ساتھ ساتھ ڈیل کر لیا جائے گا۔ اور اگر مریضوں کی تعداد قابو سے باہر ہو گئی تو؟ اس بات کا جواب فی الحال مقتدر حلقوں کے پاس یہ ہے کہ سب کچھ دوبارہ بند کر دیا جائے گا۔ قوم کے شعور اور تعاون کی مثال تو ہم سب کے سامنے ہے ہی، سب کچھ بحال کر کے عوام کے اوپر اکتفا کرنا، یہ کتنی سودمند پالیسی ہے، واللہ العالم۔۔۔۔
جیسے ہر بحران میں ایک ’موقع‘ ہوتا ہے، ہم پاکستانیوں کو بھی پہلی مرتبہ  سائنس کی افادیت کاحقیقی اندازہ ہوا ہے۔اس ملک کی ستم ظریفی دیکھیے کہ سائنس کی وزارت صرف خانہ پری کے لیےعنائت کی جاتی  رہی ہے۔ اس کرائسس میں وفاقی وزیر سائینس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے جس تندہی سے  ملک کےانجینئیرز اور سائینسدانوں کی مدد سے کرونا کا مقابلہ کرنے کے لیے ماسکس، حفاظتی کٹس، سینیٹائزرز، ڈس انفیکٹنٹس  اور یہاں تک کے وینٹیلٹرز کے پروٹوٹائپس تک تیار کر کے فراہم کر دیے ہیں۔

نئی پالیسی کے تحت حکومت نے معاملہ عوام پر چھوڑ دیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اس سے ادراک ہو جانا چاہیے  کہ اگر ریاست کی ترجیحات مختلف ہوں تو اس ملک کے پروفیشنلزکیا کچھ نہیں کر سکتے۔ یقیناً اس کاوش کے لیے فواد چوہدری داد کے مستحق ہیں۔
نئی پالیسی کے تحت حکومت نے معاملہ عوام پر چھوڑ تو دیا ہے مگر اگر عوام نے بھی پروا نہ کی ، جس کے امکانات کافی روشن ہیں، تو معاملہ واپس حکومت کی کورٹ میں ہی آ جائے گا ۔ سمجھداری یہی ہے کہ جاگتے بھی رہا جائے اور جو جس کی ذمہ داری ہے وہ ادا بھی کرے۔ عوام کا کام احتیاط مگر حکومت کا کام منصوبہ بندی ہے۔
’ساڈے تے نہ رہنا‘  نہ چوکیداروں کا سلوگن ہونا چاہیے اور نہ ہی حکومت کا۔
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز بلاگز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: