’قطری حکام کو کورونا کے وسیع پھیلاؤ سے بچنے کے لیے فوری طور پر حرکت میں آنا چاہیے کیونکہ اس سے قیدیوں، عملے اور دوحہ کے رہائشیوں تک کے وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔‘
یہ کہنا ہے ہیومن رائٹس کے مشرق وسطیٰ کے ڈائریکٹر مائیکل پیج کا، ان کی تجویز ہے ’قطر ان قیدیوں کو چھوڑ سکتا ہے جو بیماری کا آسان شکار ہو سکتے ہیں جیسے بزرگ افراد یا پھر جنہوں نے معمولی نوعیت کے جرائم کیے ہیں جبکہ دیگر بچ جانے والے قیدیوں کو مناسب طبی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔‘
قطر اس سے قبل بھی کم آمدن والے غیر ملکی کارکنوں کو کورونا وبا کے مقابلے میں بے سہارا چھوڑنے پر سخت تنقید کی زد میں آ چکا ہے اب ایسی ہی صورت حال ملک کی بڑی جیل میں ہے جہاں حکام بیماری سے نمٹنے میں غلفت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
کئی قیدیوں کے وائرس کا شکار ہونے کے بعد چھ غیرملکی قیدیوں نے ہیومن رائٹس واچ کو صورت حال کے بارے میں بتایا۔
عملے نے وائرس زدہ قیدیوں پر مشتمل بلاک کو آئسولیٹ کیا مگر یہ اقدام کچھ زیرحراست افراد کو دوسرے پرہجوم مقامات پر بھیجنے کے بعد کیا گیا۔
قیدیوں نے بتایا کہ طبی سہولت صرف بوڑھے اور ان کمزور افراد تک محدود تھی جو وبا کا آسان شکار ہو سکتے تھے۔
گارڈز نے کہا کہ دو مئی کو پانچ قیدی وائرس کا شکار ہو گئے تھے۔
ایک قیدی کا کہنا تھا ’تب سے مزید قیدی، جو ممکنہ طور پر وائرس زدہ ہو سکتے ہیں ہمارے بلاک میں لائے گئے، ہمارے پاس 96 بیڈز ہیں جبکہ اب ہمارے بلاک میں 150 کے لگ بھگ قیدی موجود ہیں‘
ایک اور گارڈ نے بتایا کہ اس کے بعد مزید سینتالیس افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔
قیدیوں نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ ان کے بلاک میں 150 قیدیوں کے لے صرف آٹھ باتھ روم ہیں۔
’لوگ جیل کے فرش، مسجد اور لائبریری میں سوتے ہیں اور ہر کوئی دوسرے سے خوفزدہ ہے۔ ہمیں کچھم معلوم نہیں کہ کون ہمیں وائرس لگا سکتا ہے۔‘
قیدی نے بتایا ’ایک ایسے وقت میں جب ہم سب ایک دوسرے سے دور ہونا چاہیے، ہم کو باڑے میں رکھنے جانے والے جانوروں کی طرح ایک ساتھ رکھا جا رہا ہے۔‘
قطر میں تقریباً چونتیس ہزار لوگوں کے کورونا کے ٹیسٹ مثبت ہیں جس کی کُل آبادی تقریباً اٹھائیس لاکھ ہے۔ وہاں کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے صرف پندرہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اتوار کو قطر نے انتباہ جاری کیا ہے کہ ان لوگوں کو تین سال سے زائد قید میں رکھا جائے گا جو عوامی مقامات پر ماسک نہیں پہنیں گے۔