ہفتے کے روز موبائل فون پر اپنے کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ کا میسج آیا تو دھڑکتے دل کے ساتھ لنک کھولا۔
لاشعوری طور پر شاید ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اب سوال یہ نہیں ہے کہ کیا ہمیں کورونا ہو گا بلکہ سوال یہ ہے کہ ہونا تو ہے ہی، اب دیکھنا یہ ہے کہ کب تک ہوتا ہے۔
لیکن سچ پوچھیں تو ’کووڈ پازیٹو‘ کا لفظ پڑھ کر پہلی بار چار سو چالیس وولٹ کا ایک جھٹکا سا لگتا ہے۔ اس کے بعد جو خیال ذہن میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ آخر یہ نگوڑا وائرس لگا کس جگہ سے ہے؟
اگلا کام فوری طور پر ان لوگوں کو مطلع کرنا ضروری ہے جن سے آپ کا چند دنوں میں میل ملاپ رہا ہو۔ کئی ایسے پڑھے لکھے، بظاہر سمجھدار اور متمول خاندان دیکھے ہیں جو اپنی علامات کو چھپاتے ہیں، ٹیسٹ نہیں کراتے اور دوسروں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ایک ذمہ دار حکومتی عہدیدار سے بات ہوئی جنہوں نے بتایا کہ اب تو کچھ ایم این ایز بھی ٹیسٹ کرانے سے کترا رہے ہیں کہ اگر کووڈ پازیٹو نکل آیا تو بدنامی ہو جائے گی۔
بہرحال تمام وسوسے اور اندیشے اپنی جگہ، لیکن کورونا پازیٹو ہونے کے بعد ایک عجیب سا اطمینان بھی ہو جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ اب ہر وہم سے آزاد ہو گئے ہیں، بھلے چنگے ہونے کے بعد کم از کم آپ کے لیے تو دنیا اور زندگی معمول پر آ جائے گی۔
پیر کو حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کی اپنی پالیسی میں مزید توسیع کا اعلان کر دیا ہے، وہ پالیسی جس کے ثمرات اب بھرپور طریقے سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں کیونکہ اب اعداد و شمار کی جگہ چہروں اور ناموں نے لے لی ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی ایسے شخص کو جانتا ہے جس کا انتقال کورونا کے باعث ہوا ہے۔ حکومت اسے بار بار ’سمارٹ لاک ڈاؤن‘ کا نام دے رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاست نے غیر اعلانیہ طور پر جو پالیسی اس وقت اپنائی ہوئی ہے اسے ’ہرڈ امیونٹی‘ کہا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایک بڑی آبادی وبا کا شکار ہو کر اجتماعی قوت مدافعت پیدا کر لیتی ہے۔ ابھی تک دنیا میں سویڈن نے اور شروع شروع میں برطانیہ نے ہرڈ امیونٹی پالیسی اختیار کی لیکن ان حکومتوں کا یہ قدم اعلانیہ تھا۔
مزید پڑھیں
-
’کورونا عالمی مسئلہ ہے، دنیا مل کر ہی اس سے نمٹ سکتی ہے‘Node ID: 481576
-
کیا ایئر کنڈیشنرز کورونا کو پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں؟Node ID: 481916
-
کیا ماسک پہننے پر عمل ہو رہا ہے؟Node ID: 482491