پاکستان میں انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پی ٹی اے ( پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی) نے صارفین کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ موبائل یا کمپیوٹر پر ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) استعمال کرتے ہیں تو اسے 30 جون تک ادارے کے ساتھ رجسٹر کروا لیں بصورت دیگر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
پی ٹی اے کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام پاکستان میں قانونی آئی سی ٹی سروسز / کاروبار کے فروغ اور ٹیلی کام صارفین کے تحفظ کے پیش نظر اٹھایا جا رہا ہے۔
تاہم پاکستان میں انٹرنیٹ کے صارفین کے لیے کام کرنے والی تنظمیوں نے اس اقدام پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وی پی این پر پابندی سے ناصرف صارفین کے حقوق متاثر ہوں گے بلکہ ان کے جان و مال کی حفاظت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
مزید پڑھیں
-
سماجی رابطوں کی مقامی ویب سائٹس بنانے کی تجویزNode ID: 427146
-
انڈین کشمیر میں انٹرنیٹ کا استعمال ممنوعNode ID: 449601
-
سوشل میڈیا قواعد: ’ڈیجیٹل معیشت کا منصوبہ متاثر ہوگا‘Node ID: 459151
وی پی این ہوتا کیا ہے؟
ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک ایک سافٹ ویئر ہے جو صارفین کا انٹرنیٹ ایڈریس بدل کر انہیں ایک نئی شناخت دیتا ہے جو آپ کے انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے والی کمپنی سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔
وی پی این ایک سرنگ سی بناتا ہے اور جب آپ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں تو آپ کا ڈیٹا آپ کے آئی پی ایڈریس کے بجائے وی پی این کے سرور سے شو ہوتا ہے جو ہو سکتا ہے کسی دوسرے ملک میں موجود ہو۔
اس نئی شناخت اور سرور کے باعث انٹرنیٹ استعمال کرنے والے شخص کی آن لائن ایکٹیویٹی چھپ جاتی ہے اور اس کی گفتگو وغیرہ محفوظ ہو جاتی ہے۔
ناصرف یہ بلکہ وی پی این استعمال کرنے والا شخص وہ تمام ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز استعمال کر سکتا ہے جو اس کے اصل انٹرنیٹ ایڈریس والے ملک میں دستیاب نہیں ہوتیں۔مثلاً چین میں گوگل اور فیس بک کی سروس بند ہے مگر وی پی این کے ذریعے کوئی بھی شخص وہاں پر یہ دونوں پلیٹ فارم استعمال کر سکتا ہے۔
وی پی این کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟
اگر آپ موبائل یا کمپیوٹر پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور خاص طور پر وائے فائے کا استعمال کرتے ہیں تو آپ کی معلومات اور آپ کی انٹرنیٹ پر کی جانے والی ہر سرگرمی دیکھی اور چیک کی جا سکتی ہے اس لیے ماہرین کے مطابق عوامی وائے فائے کے مقامات پر ہر شخص کے لیے لازم ہے کہ وہ وی پی این استعمال کرے تاکہ اس کی معلومات محفوظ اور اس تک محدود رہ سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں موبائل یا کمپیوٹر استعمال کرنے والے کروڑوں افراد وی پی این استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ انٹرنیٹ پر اپنی پرائیویسی محفوظ رکھ سکیں۔
انٹرنیٹ پر صارفین کے حقوق کے تحفظ پر کام کرنے والی تنظیم بائٹس فار آل کے کنٹری ڈائریکٹر شہزاد احمد کے مطابق چاہے کوئی فرد واحد ہو جیسے صحافی یا سیاسی ورکر یا کمپنی ہو جیسے بینک وغیرہ ان سب کو اپنے آن لائن تحفظ کے لیے وی پی این کی ضرورت ہوتی ہے۔
'بینکس وغیرہ کو اپنے کھاتہ داروں کے اکاونٹس اور دیگر تفصیلات اور قیمتی معلومات کو ہیکرز وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی وی پی این کی ضرورت ہوتی ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ وی پی این سائبر سکیورٹی اور پرائیویسی کا ضامن ہے۔
ماہرین کے مطابق وی پی این آپ کی معلومات کو خفیہ رکھ کر آُپ کو پانچ ذرائع سے مدد دے سکتا ہے۔
1 -انٹرنیٹ پر سرگرمی کی ہسٹری کو خفیہ رکھنا
2 -آئی پی ایڈریس اور آپ کی لوکیشن خفیہ رکھنا
3 -دوسرے ممالک میں سپورٹس اور ویڈیو سٹریمنگ کی سہولت
4 موبائل کمپیوٹر و دیگر آلات کا تحفظ
5 سنسرشپ کے خلاف مدد۔
پی ٹی اے کے اقدام کےکیا اثرات ہو سکتے ہیں؟
بائٹس فار آل کے شہزاد احمد کے مطابق پی ٹی اے کا فیصلہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آن لائن دنیا سیدھی سادھی نہیں بلکہ مسائل یا فتنوں سے بھرپور ہے جہاں چوریاں، فراڈ اور ڈارک ویب سب کچھ ہوتا ہے۔ ایسے میں وی پی این ایک صارف کو خاصا تحفظ فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے وی پی این کو رجسٹر کرنے کے پی ٹی اے کے اقدام کو حکومت کے ڈیجیٹل پاکستان کے تصور کے متصادم قرار دیا۔
'میں سمجھتا ہوں کہ ڈیجیٹل پاکستان کے وژن کے تحت آپ نے لوگوں کو مزید مواقع دینے ہیں تاکہ وہ اپنی تحقیق کر سکیں، تجربات کر سکیں یا کاروبار کر سکیں۔ایسے میں وی پی این پر قدغن سے اور اس طرح کی چھوٹی چھوٹی پابندیوں سے آپ ویژن حاصل نہیں کر سکتے۔'
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اقدام سے پاکستان جیسے جمہوری ملک کی دنیا میں جگ ہنسائی ہو گی کیونکہ وی پی این پر پابندیاں چین اور غیر جمہوری ممالک کے علاوہ اور کہیں نہیں ہیں۔
'ہماری جمہوری اقدار ہیں۔ ہمارے نوجوان ہیں جو انٹرنیٹ پر کاروبار کرنا چاہتے ہیں ان کو انٹرنیٹ پر مکمل رسائی نہیں ہو گی تو وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔'
ایک سوال پر کہ آخر حکومت قومی سلامتی کے تحفظ کو کیسے یقینی بنائے ان کا کہنا تھا کہ وی پی این پر پابندی سے قومی سلامتی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ جو ملک دشمن عناصر ہیں وہ جدید راستے نکال سکتے ہیں اور اس پابندی کا باآسانی توڑ کر لیں گے مگر پابندی کا اصل نقصان عام شہریوں کو ہو گا جن کی پرائیویسی، تخلیقی صلاحیت اور کاروبار متاثر ہوں گے۔
شہزاد احمد کا خیال ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ آن لائن پابندیوں کے حوالے سے تجاویز پر پیسہ اور دماغ خرچ کرنا بند کر دے کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ لوگوں کو انٹرنیٹ کا ذمہ دارانہ استعمال سکھائے۔
انٹرنیٹ پر آزادیوں کے حوالے سے کام کرنے والے کارکن اور غیر سرکاری تنظیم 'بولو بھی' کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کہتے ہیں کہ دنیا کے کسی جمہوری ملک میں وی پی این کو بلاک نہیں کیا جاتا کیونکہ وی پی این کے بغیر آپ کا ڈیٹا غیر محفوظ ہوتا ہے اور کمپنیاں اسے بیچتی بھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس ایک مانیٹرنگ سسٹم موجود ہے جس کے تحت گرے ٹریفکنگ یعنی غیر قانونی طریقے سے بین الاقوامی فون کالز وغیرہ کو روکا جا سکتا ہے اس لیے وی پی این کو رجسٹر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ پی ٹی اے کے ساتھ وی پی این رجسٹر کرنے کی صورت میں صارف کا ڈیٹا پی ٹی اے کے پاس بھی جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں اکثر لوگ مفت والا وی پی این استعمال کرتے ہیں اور مفت وی پی این صارفین کا ڈیٹا حکومتوں یا دیگر لوگوں کو فروخت کرکے پیسے کماتے ہیں۔
پی ٹی اے کا موقف