وزارت تجارت نے صارفین کے تحفظ کے لیے چار سفارشات مرتب کی ہیں (فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب میں آن لائن شاپنگ کے بڑھتے ہوئے رحجان نے لوگوں کو اپنی ضرورت کے حصول کے لیے ایک آسان اور تیز راستہ فراہم کیا ہے۔ ان غیر یقینی حالات میں صارفین کے حقوق اتنے واضح کبھی نہیں ہوئے جتنے کہ اب ہیں۔
سعودی عرب میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران سٹوروں کی بندش کی وجہ سے گذشتہ کچھ مہینوں میں آن لائن خریداری میں اضافہ ہوا ہے تاہم اشیا کی ترسیل میں تاخیر، ناقص اشیا کی فراہمی، گمشدہ اشیا کے ساتھ پیکجز کی پوری قیمت ادا کرنے اور کمپنیوں کی جانب سے چیزیں واپس کرنے سے انکار کرنے کی وجہ سے صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سعودی وزارت تجارت و سرمایہ کاری (ایم سی آئی) نے آن لائن خریداری سے قبل صارفین کے تحفظ کے لیے چار سفارشات مرتب کی ہیں۔
ایم سی آئی نے آن لائن صارفین کو ان کے حقوق سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں ایسے آن لائن سٹورز سے خریداری کرنے کی سفارش کی ہے جنہوں نے تجارتی رجسٹریشن نمبر حاصل کیے ہیں یا وہ وزارت کے ای کامرس پلیٹ فارم ’معروف‘ کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔
ایم سی آئی کے مطابق شپمنٹ میں 15 دن سے زیادہ کی تاخیر ہونے کی صورت میں صارفین کو اپنے آرڈرز کو منسوخ کرنے اور مکمل رقم کی واپسی کی اجازت ہوگی۔ انہیں خریداری کے لیے خصوصی طور پر ڈیزائن یا تیار کی گئی اشیا کو چھوڑ کر سات دن کے اندر خریدی گئی اشیا کو واپس یا تبدیل کرنے کا حق ہے۔
وزارت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر شپمنٹ میں تاخیر ہوتی ہے تو آن لائن سٹورز کو خریداروں کو آگاہ کرنا چاہیے اور سامان کی فراہمی کے لیے ایک ڈیڈ لائن بتانا ضروری ہے۔
اگر صارفین آن لائن سٹور کے سرکاری چینلز کے ذریعہ اس میں غلطی نوٹس کرتے ہیں تو ان کے آرڈر میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے 24 گھنٹے کا وقت ہوتا ہے۔
نجی شعبے کی کارکن زینب محمد کو ایک بڑی پرچون چین سے آن لائن خریداری کے دوران زحمت ہوئی تھی جس نے ان کی شپمنٹ دو ماہ تک ملتوی کر دی تھی۔
زینب نے سعودی مملکت میں کررونا وائرس کی وجہ سے کی جانے والے مکمل لاک ڈاؤن اور تمام تجارتی سرگرمیوں کو بند کرنے سے پہلے ان اشیا کا آرڈر دیا تھا۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا ’میں خود سٹور جانے کے مضمرات کو جانتی تھی کیونکہ ہمیں گھر میں رہنے کی ہدایت کی گئی تھی اور اس وقت صرف کھانے پینے کا سامان خریدنے کی اجازت دی گئی تھی۔ میں نے آن لائن خریداری کا انتخاب کیا اور سٹور نے خریداری کے بعد مجھے دو ہفتے کی ترسیل کی تاریخ پر ای میل کی۔ سٹور کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن آئی اور گزر گئی۔‘
زینب نے کسٹمر سروس سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے سٹور کو کم از کم 10 بار میل کی اور ان سے اپنی خریداری کے بارے میں پوچھا لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔
انہوں نے کہا ’اس وقت لاک ڈاؤن کی وجہ سے ڈلیوری کمپنیوں کو شدید نقصان پہنچا تھا لیکن متعلقہ حکام نے ان کی فراہمی جاری رکھنے کے لیے انہیں صحیح اجازت نامے فراہم کیے تھے لہذا اس میں کوئی عذر نہیں تھا۔ایک مہینہ گزر گیا اور پھر بھی کوئی جواب نہیں ملا اور میں نے شکایت کرنے میں تاخیر کی۔‘
جب زینب کو دو ماہ بعد بھی سٹور سے مناسب جواب نہ ملا تو انہیں شدید غصہ آیا۔
سٹور کا اصرار تھا کہ یہ آرڈر دو شپنگ کمپنیوں کے مابین تھا تاہم کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی وجہ سے ان سے آرڈر کی ترسیل میں تاخیر ہوئی۔
زینب کے بقول ’یہ ناقابل معافی تھا۔ انہوں نے میرا آرڈر منسوخ کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے مجھے ترسیل کی تاریخ فراہم کرنے سے انکار کردیا اور مجھے شپمنٹ نمبر فراہم کرنے سے بھی انکار کر دیا۔‘
زینب نے شکایت فارم بھرا اور 72 گھنٹوں کے اندر انہیں ان کا آرڈر مل گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آن لائن سٹورز کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صارفین کے حقوق ہیں اور وہ (سٹورز) لاک ڈاؤن سے متاثر نہیں ہوئے تھے۔
انہوں نے وزارت کی تیز رفتار کارروائی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھوڑی سی سمجھ بوجھ بھی بہت ہوتی ہے لیکن انھوں نے صورتحال کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہوئے معاملات کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔