Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

328 پاکستانیوں کی میتیں وطن پہنچ گئیں، 41 باقی

سفری پابندیوں کے باعث میتیں پاکستان لانے میں تاخیر ہوئی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
کورونا وائرس کے پیش نظر سفری پابندیوں کے باعث جہاں دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہاں سعودی عرب میں مقیم پاکستانی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔
دیار غیر میں اپنوں کی موت ہو جائے تو کوشش ہوتی ہے کہ وطن کی مٹی میں سپرد خاک کیا جائے اس کے لیے کوشش بھی کی جاتی ہے۔
سعودی عرب میں کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے نافذ کرفیو کے دوران پاکستانی مختلف بیماریوں و حادثات کے باعث ہلاک ہوئے، تاہم سفری پابندیوں کے باعث میتیں پاکستان لانے میں تاخیر ہوئی۔
حکومت پاکستان کی کوششوں سے سعودی حکام نے واپسی کے خواہش مند پاکستانیوں کے لیے خصوصی پروازوں کی اجازت دی تو وہاں موجود میتوں کی منتقلی کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
خصوصی پروازوں کے آغاز سے اب تک سعودی عرب سے 328 میتیں وطن بھیجی جا چکی ہیں جبکہ 41 میتیں اب بھی ہسپتالوں کے سرد خانوں میں موجود ہیں۔
جدہ میں پاکستان قونصلیٹ کے ویلفیئر قونصلر ماجد میمن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کورونا کی وبا کے بعد 12 مارچ سے اب تک جدہ ریجن سے 147 میتوں کے لیے این او سی جاری ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 132 پاکستان روانہ کی جا چکی ہیں۔ ان سب کی موت عام حالات میں ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’15 میتیں ابھی ہسپتالوں کے سرد خانوں میں موجود ہیں، انہیں بھیجنے کے لیے کارروائی مکمل کی جا رہی ہے اور انہیں بھی جلد روانہ کر دیا جائے گا۔‘
ریاض میں پاکستانی سفارتخانے کے قونصل ویلفیئر عبدالشکور نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’12 مارچ سے اب تک ریاض ریجن سے 196 میتیں بھیجی جا چکی ہیں جبکہ 26 ہسپتالوں کے سرد خانے میں موجود ہیں۔'
ان کے مطابق کاغذی کارروائی مکمل ہوتے ہی انہیں بھی جلد روانہ کر دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ سعودی عرب سے میتیں پاکستان منتقل کرنے کا ایک مخصوص طریقہ کار ہے۔ سعودی قانون کے مطابق تمام مراحل اور کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ہی میت بھیجی جاتی ہے۔

’سعودی قانون کے مطابق کارروائی مکمل ہونے کے بعد ہی میت حوالے کی جاتی ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اس سوال پر کہ عام حالات میں میت کی پاکستان روانگی میں کتنا وقت درکار ہوتا ہے؟
ماجد میمن کا کہنا تھا کہ ’اس کا دار و مدار حالات پر ہے.اگر کسی کارکن کی موت کی وجہ طبی ہو تو پانچ دن یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں سعودی قانون کےمطابق تمام کارروائی مکمل کر کے میت روانہ کر دی جاتی ہے۔ اگر موت کسی اور وجہ سے ہوئی ہو تو اس میں تاخیر ہوتی ہے۔ سعودی قانون کے مطابق کارروائی مکمل ہونے کے بعد ہی میت حوالے کی جاتی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’کورونا وائرس کے باعث لگائی گئی سفری پابندیوں کے باعث میتوں کی پاکستان منتقلی میں تاخیر ہوئی، تاہم جیسے ہی خصوصی پروازیں شروع ہوئیں، میتوں کی منتقلی کا کام تیزی سے کیا گیا‘۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ زیادہ تر لوگ میت پاکستان لے جانے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں اگر تدفین سعودی عرب میں کی جائے تو این او سی کے اجرا اور تمام کارروائی کے لیے ایک دن درکار ہوتا ہے۔
 ویلفیئر قونصلر نے میت کی منتقلی کے اخراجات کے حوالے سے بتایا کہ یہ کفیل، کمپنی یا لواحقین کو ادا کرنا پڑتے ہیں. ان میں میت کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے ایک انجکشن ہے جس کی قیمت اس وقت پانچ ہزار ریال ہے جو سعودی وزارت صحت وصول کرتی ہے۔
ان کے مطابق کارگو ہینڈلنگ، ڈاکومنٹیشن، ایمبولنس، ہسپتال، ایئر پورٹ چارجز اور دیگر کی مد میں لگ بھگ اڑھائی ہزار ریال خرچ ہوتے ہیں اور یہ تمام کام پرائیویٹ کمپنی کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔

سفارت خانے کا ویلفیئر سیکشن یا کمیونٹی کی تنظیمیں میت کی پاکستان منتقلی میں مدد کرتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مزید کہا کہ کسی کارکن کی موت کی صورت میں میت کو اس کے ملک واپس بھجوانا کفیل کی ذمہ داری ہے.
عموماً یہ اخراجات کمپنی یا کفیل ادا کرتا ہے، تاہم جو تارکین غیر قانونی طور پر مقیم ہوں یا اپنے کفیل سے ہٹ کر کہیں اور کام کر رہے ہوں تو ایسی صورت میں کفیل اخراجات ادا کرنے سے انکار کرتا ہے تو لواحقین یہ رقم ادا کرتے ہیں۔
سفارت خانے کا ویلفیئر سیکشن یا کمیونٹی کی تنظیمیں میت کی پاکستان منتقلی میں مدد کرتی ہیں۔ اگر کسی کارکن کا سعودی عرب میں کوئی والی وارث موجود نہ ہو قونصلیٹ کا ویلفیئرسیکشن میت پاکستان بھیجنے کا اتنظام کرتا ہے۔
  • واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں

شیئر: