پاکستانی ٹی وی میزبان یشفین جمال کے لیے وہ لمحہ حیرت کا تھا جب ان کے بینک اکاؤنٹ سے آن لائن خریداری کی گئی اور انہیں تب علم ہوا جب وہ مالی نقصان کا شکار ہو چکی تھیں۔
عام تاثر یہی ہے کہ آن لائن مالی فراڈ میں ملوث عناصر سادہ لوح لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں لیکن سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر شیئر کی جانے والی تفصیلات سے واضح ہے کہ اچھے خاصے باخبر اور تعلیم یافتہ افراد بھی سائبر جرائم سے محفوظ نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں
-
کیا آپ کو اپنی پہلی تنخواہ یاد ہے ؟Node ID: 491406
-
شناختی کارڈ لائیں اور لائسنس لے جائیںNode ID: 491606
-
کفیل کی مرضی کے بغیر سپانسر کی تبدیلی کیسے؟Node ID: 491851
انٹرنیٹ پر ذاتی معلومات کی چوری اور مالی نقصان کا شکار ہونے والی یشفین جمال نے بتایا کہ ’میں بھی فون کے ذریعے دھوکہ دہی کا شکار ہوئی ہوں۔ میرا اکاؤنٹ ہیک کر کے ادائیگی کی گئی‘۔ آن لائن شاپنگ پلیٹ فارم اور اپنے بینک کو مینشن کرتے ہوئے انہوں نے توقع ظاہر کی کہ دونوں ادارے کچھ کر سکیں گے۔
یشفین جمال سائبر دھوکہ دہی کا شکار ہونے والے ان خوش قسمت افراد میں شامل رہیں جن کا نقصان تو ہوا لیکن فورا اس کے ازالے کی امید بھی پیدا ہو گئی۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ٹیلی ویژن میزبان یشفین جمال نے بتایا کہ مسئلے کی نشاندہی کرنے پر ایف آئی اے کے متعلقہ حکام نے اچھا اور فوری ریسپانس دیا، نقصان سے بچانے کے لیے ضروری تکنیکی معاونت بھی فراہم کی۔ آن لائن شاپنگ پلیٹ فارم نے بھی دھوکہ دہی سے دیا گیا آرڈر فوری کینسل کر دیا۔
انٹریٹ پر ذاتی معلومات اور پاس ورڈز وغیرہ محفوظ رکھنے سے متعلق اپنے طریقے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ اکاؤنٹس کی لاگ ان تفصیلات (یوزر نیم، پاس ورڈز) وغیرہ فون یا ایپلیکیشن میں محفوظ نہیں کرتیں تا کہ ان معلومات کا غلط استعمال نہ کیا جا سکے۔
دنیا کے دیگر حصوں کی طرح پاکستان میں جہاں سائبر جرائم سے وابستہ افراد اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے نت نئے حربے آزماتے ہیں وہیں ڈیجیٹل دنیا میں ذاتی معلومات کا غلط استعمال روکنے یا مالی دھوکہ دہی سے بچنے کے ساتھ ساتھ اس کا شکار ہونے والوں کی دادرسی کے لیے متعلقہ ادارے بھی مختلف اقدامات کرتے ہیں۔
پاکستان میں سائبر کرائم کی روک تھام اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی ذمہ داری فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے این آر تھری سی یا سائبر کرائم سیل کی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان میں سائبر جرائم کی تعداد میں خاصی کمی دیکھنے میں آئی تھی۔ اپریل کے اختتام پر اردو نیوز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ لاک ڈاؤن میں انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال کے باوجود سائبر کرائم میں تقریباً 50 فیصد تک کمی آئی ہے۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب ایف آئی اے کے ڈیٹا کے مطابق لاک ڈاؤن سے قبل کے تین ہفتوں میں سائبر کرائم کی 923 وارداتیں رپورٹ ہوئیں جب کہ لاک ڈاؤن کے ابتدائی تین ہفتوں میں ایسی 488 وارداتیں رپورٹ کی گئیں۔'
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ 'گذشتہ دو ماہ کے عرصے میں ان کے ادارے نے سائبر کرائم میں ملوث چھ بدنام زمانہ گینگز کو بے نقاب کر کے 45 ملزمان کو پکڑا ہے جس کی وجہ سے سائبر کرائم میں خوش گوار کمی دیکھنے میں آئی ہے۔'
سائبر کرائم سیل کی اس فعالیت کے باوجود کچھ صارفین کو شکوہ رہتا ہے کہ وہ مسئلہ رپورٹ تو کر چکے ہیں لیکن حل نہیں ہو پا رہا۔ قانون کے شعبے سے وابستہ لیاقت بنوری نے ایسی ہی صورت حال کی نشاندہی کی تو لکھا کہ ’گذشتہ ہفتے شکایت درج کرائی تھی لیکن آٹھ یا نو دن گزرنے کے بعد بھی کوئی رسپانس نہیں ہے‘۔
سائبر جرائم رپورٹ کیسے کریں؟