پاکستان کے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا ہے کہ اگلے سال حج کے لیے حکومت ان تمام افراد کو ترجیح دے گی جنہوں نے اس سال حج کے لیے رقوم جمع کروائی تھیں مگر کورونا کی عالمی وبا کے پیش نظر کیے جانے والے سعودی حکومت کے محدود حج کے فیصلے کے باعث حج پر نہیں جا سکیں گے۔
اسلام آباد میں اردو نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’اس سال رقوم جمع کروانے والے عازمین کو بغیر کسی کٹوتی کے رقوم کی واپسی دوجولائی سے شروع ہو چکی ہے اور ہماری تو یقیناً یہی خواہش ہو گی کہ جو لوگ اس مرتبہ رہ گئے ہیں وہ اگلے سال حج پر چلے جائیں۔‘
’دیکھیں ہمارا جو معاہدہ سعودی حکومت کے ساتھ ہوا اس کے تحت ایک لاکھ 80 ہزار حجاج نے جانا تھا جس میں ایک لاکھ سات ہزار حجاج حکومتی سکیم کے ذریعے اور باقی 74 ہزار حجاج پرائیویٹ سکیم کے ذریعے جا رہے تھے۔ اگلے سال اگر ہمیں اتنا کوٹہ ملتا ہے اور یہ سارے لوگ اس میں آسکتے ہیں تو ہماری کوشش ہو گی کہ ان کو ایک موقع دیا جائے۔‘
مزید پڑھیں
-
حج کو محدود رکھنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟Node ID: 487236
-
حج: 'رقم جمع کی لیکن اللہ کو منظور نہ تھا'Node ID: 487786
-
حج رجسٹریشن: غیر ملکیوں سے درخواستیں طلبNode ID: 490461
سعودی حکومت کے فیصلے نے پاکستان کی مشکل آسان کر دی
ایک سوال پر پاکستان میں حج کے امور کی نگرانی پر معمور وزارت کے سربراہ نورالحق قادری کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت نے کورونا کے باعث بیرون ملک سے حاجیوں کو نہ لانے کا جو فیصلہ کیا اس نے پاکستان کی مشکل بھی آسان کر دی۔
’ہم ان (سعودی حکومت ٰ) سے مسلسل رابطے میں تھے، جب سے فروری کے اواخر میں اور مارچ کے اوائل میں (کورونا کا آغاز ہوا) تو ہم بھی تمام پہلوؤں کو دیکھ رہے تھے وہ بھی دیکھ رہے تھے، ان کو بھی تشویش تھی اور ہمیں بھی بہت تشویش تھی، لیکن انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کر دیا کہ ہماری تشویش کو آسان کردیا۔‘
وفاقی وزیر نے کہا کہ ’اگر وہ کہتے کہ آجائیں تو پھر ہمیں فکر ہوتی کہ دولاکھ لوگوں کو کیسے بھیجیں اور ان کی واپسی کیسے ہوگی۔ ان کی ٹیسٹنگ کرنا ہوتی ہے، بہت ساری چیزیں تھیں جو متعلقہ تھیں جس میں بہت معمر لوگ بھی تھے، پھر مریض، بچے اور خواتین تھیں، تو ہمیں بھی کافی مشکل فیصلہ کرنا تھا۔ انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کر دیا جو میرے خیال میں بہت مناسب تھا۔ اکثر اسلامی ممالک کی مذہبی امور و اوقاف اور حج سے متعلق وزارتیں یہی توقع یہی کر رہی تھیں۔‘

پاکستانی سفارت خانہ اس سال کمیونٹی کے حجاج نہیں چنے گا
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس سال سعودی عرب میں مقیم پاکستانی لوگوں کے حج میں شرکت کے لیے انتخاب میں سفارت خانے کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ آن لائن درخواستیں وصول کی گئی ہیں۔ اس میں صحت اور عمر کا پوچھا گیا ہے اور پھر جو اس معیار پر پورے اترتے ہیں ان سے درخواستیں لی جا رہی ہیں اور پھر کسی قرعہ اندازی وغیرہ کے ذریعے ان کا انتخاب کریں گے تاہم سفارت خانہ صرف اپنے دس یا پندرہ لوگوں کا انتخاب کرے گا جو اس سال حج پر جائیں گے۔
انہوں نے اردو نیوز کے ایک اور سوال پر بتایا کہ اس سال حجاج کی رقوم بینکوں میں رکھنے سے جو آمدنی حاصل ہوئی ہے وہ حجاج کی بہبود کے فنڈ میں ڈال دی جائے گی اور حجاج سے متعلقہ کاموں میں ہی وہ خرچ کی جائے گی۔ یہ رقم اسلامی بینکنگ کے ذریعے آتی ہے۔ ہمارے تمام بینک شریعت کے اصولوں کے مطابق رقم رکھتے ہیں اور یہ تمام رقم حاجیوں کی خدمت پر ہی خرچ کی جائے گی۔
عمرہ زائرین کی سہولت کے لیے قانون سازی
پاکستان کے عمرہ زائرین کی جانب سے فراڈ اور ناقص سہولیات کی شکایات کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ فی الحال عمرے کا کاروبار وزارت مذہبی امور کے زیرانتظام نہیں ہے، تاہم حکومت پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کر رہی ہے جس کے تحت حج، عمرہ اور زیارات وغیرہ کی ریگولیشن وزارت مذہبی امور کے پاس آ جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ فی الحال تو حج کے حوالے سے بھی کوئی قانون موجود نہیں ہے اور ہر سال کابینہ حج پالیسی منظور کرتی ہے، نئے بل کے تحت اس کا بھی قانون بن جائے گا اور عمرہ بھی ریگولیٹ ہو جائے گا۔
’ہمارا کردار ریگولیٹر کے طور پر یہ ہو گا کہ کوئی کسی کے ساتھ فراڈ نہ کرے، کسی کی رقم ہڑپ نہ ہو۔ وہاں جو سہولیات کا وعدہ کمپنیاں کریں وہ دی جائیں اور پاکستانی زائرین کا ایک معیار بنایا جائے کہ وہاں ان کی رہائش اور کھانے پینے کا بھی انتظام ہو تاکہ عمرے کی ادایئگی ایک باوقار طریقے سے کر سکیں۔‘
اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ بل تیار ہے جو کابینہ میں جائے گا اور کابینہ کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔
پاکستان ہاؤس مکہ کی خواہش
وفاقی وزیر مذہبی امور کا کہنا تھا پاکستان ہاؤس کی مد میں سعودی حکومت نے جو پاکستان کو 11 ملین ریال کی رقم دینی ہے۔ اس سے پاکستان کی خواہش ہے کہ مکہ میں پاکستان ہاؤس تعمیر کیا جائے اور اس سلسلے میں سعودی حکومت سے بات چیت چل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں مکہ میں بھی پاکستان ہاؤس کی ضرورت ہے اور مدینہ میں بھی اچھی جگہ پر پاکستان ہاؤس کی ضرورت ہے۔
