تمام مضمرات کو جانتے ہوئے اپنی حکومت پر تنقید کو براہ راست دعوت دینا آسان کام نہیں ہے (فوٹو: پی آئی ڈی)
گذشتہ ہفتے، ملکی سیاست میں ایک منفرد روایت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے معاونین خصوصی اور مشیران کی دوہری شہریت اور اثاثوں کو ڈیکلیئر کرا دیا ہے۔ اس اقدام کے لیے خان صاحب کو بھرپور کریڈٹ دیا جانا چاہیے کیونکہ ماضی میں دوہری شہریت سے متعلق ان کے فرمودات کیا رہے ہیں اور وہ کس طرح اس طرز عمل کے خلاف رہے ہیں، وہ تمام ویڈیو کلپس دوبارہ سے واٹس ایپ گروپس اور سوشل میڈیا پر آپ ملاحظہ کر ہی چکے ہوں گے۔
مجھ سمیت تمام اینکرز اپنے پروگرامز میں بار بار چلا کر تحریک انصاف کو یاد بھی کرائیں گے کہ اگر تب یہ آپ کے مطابق نامناسب پریکٹس تھی تو 15 میں سے پانچ دوہری شہریت والے مشیر آپ کی کابینہ میں کیا کر رہے ہیں۔ یہ ایک دلیرانہ فیصلہ اس لیے بھی ہے کیونکہ تمام مضمرات کو جانتے ہوئے اپنی حکومت پر تنقید کو براہ راست دعوت دینا آسان کام نہیں ہے۔
ابتدائی تعریف کے بعد تنقید بھی ہوگی کیونکہ یہ معاملہ اب یہاں پر رکنے والا تو ہے نہیں، لیکن بحث اب سیاسی بیان بازی اور رسمی بیانیے سے بڑھ کر فکری دیانت داری پر مبنی ہونی چاہیے۔ مناسب ہوگا کہ ایک بار یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ غیر ملکی شہری ریاست اور حکومت کے اعلٰی عہدوں پر فائز ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ اور بات صرف سیاسی عہدوں کی نہیں، بیوروکریسی اور محکموں کے سربراہان کے بارے میں بھی فیصلے کی ضرورت ہے۔ کسی فیصلے پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے دونوں پہلو، حق یا مخالف دلائل پر غور کر لیا جائے۔
سب سے پہلے تو دوہری شہریت کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی ہمارا سرمایہ ہیں۔ وہ نہ صرف زرِمبادلہ بھیجتے ہیں بلکہ ملک کی معاشی ترقی میں اپنی تعلیم، سرمایہ کاری اور تعلقات سے کردار بھی ادا کرتے ہی اس لیے ان کا حق ہے کہ وہ اپنی شہریت کھوئے بغیر حکومت میں شامل ہوں۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ بہت سے پاکستانی نژاد غیر ملکی پڑھے لکھے اور پیشہ ور ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کی ملک کو ضرورت ہے اور اس اہم افرادی قوت کو صرف غیر ملکی شہری ہونے کی وجہ سے ضائع نہیں ہونا چاہیے، خصوصاً ایسے وقت میں جب معیشت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں اہل افراد کی ملک میں کمی بھی ہے۔
آخری دلیل یہ کہ دنیا اب ایک گلوبل ویلج اور آپس میں منسلک ہے۔ اس میں اثر و رسوخ اور تعلقات کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ اگر کوئی پاکستانی نژاد اہم مغربی ملکوں مثلاً امریکہ اور انگلستان میں سیاسی اور معاشی اثر رکھتا ہے تو اس کا ملک کو فائدہ ہی ہے۔
اسی طرح جو بھی ہو ہمارا ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف پر انحصار جلدی ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ایسے وقت میں بیرون ملک مقیم یا شہری جو ان اداروں میں کام کر چکے ہوں اور کچھ عرصے کے لیے ملک میں خدمات انجام دیں، ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔
دوہری شہریت کے حق میں دلائل مضبوط ہیں مگر معاونین اور اعلٰی عہدوں پر اس کی مخالفت بھی کم نہیں۔ سب سے پہلے یہ ہماری آئینی سکیم سے متصادم ہے۔ آئین گورنر، صدر، وزیراعظم، قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی کے ارکان پر پابندی لگاتا ہے کہ وہ صرف پاکستان کے شہری ہوں۔ اسی اصول پر ن لیگ کے دو سینیٹرز کی رکنیت منسوخ ہوئی اور پی ٹی آئی کے گورنر کو شہریت چھوڑنی پڑی۔ اب تضاد تو واضح ہے کہ موجودہ کابینہ میں ہی کچھ لوگوں غیر ملکی شہریت چھوڑ کر اور کچھ اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔
دوسرا، دوہری شہریت میں مفادات کے ٹکراؤ کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خان صاحب خود کہہ چکے ہیں کہ غیر ملکی شہریت لیتے وقت دوسرے ملک کی وفاداری کا حلف اٹھایا جاتا ہے اور اس ملک میں فیصلہ کرنے کا حق اسی کو ہے جس کا جینا مرنا یہاں ہو۔ دوہری شہریت والوں کے اثاثے باہر ہوتے ہیں، اولاد باہر ہوتی ہے، ملک میں سٹیکس نہیں ہوتے لیکن اسی ملک میں فیصلہ سازی میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔ بیرون ملک کمپنیوں میں سرمایہ کاری اور پارٹنرشپ ہوتی ہے۔ اب جبکہ وہ پاکستان میں فیصلہ ساز پوزیشن پر ہوتے ہیں تو اپنی غیر ملکی پوزیشن اور سرمایے کا تحفظ ایک فطری ترجیح بن سکتا ہے۔
دوہری شہریت کے خلاف سب سے مضبوط دلیل یہ ہے کہ اہم عہدوں پر فائز ان لوگوں کی غیر ملکی شہریت احتساب اور شفافیت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اسی حکومت کے اندر سے آوازیں اٹھتی ہیں کہ معاونین کسی بھی وقت بیرون ملک چلے جائیں گے۔ بات صرف اس حکومت کی نہیں، ہمارے ہاں تو قحط الرجال ایسا ہے کہ اس سے پہلے وزرا بلکہ وزرائے اعظم بھی باہر سے آئے اور پھر واپس باہر ہی گئے۔
نواز شریف کے دونوں صاحبزادے بھی بیرون ملک شہریت کا دعویٰ کر کے احتساب میں پیش ہونے سے انکاری ہوئے۔ اگر دوبارہ ایسا ہوا تو دوہری شہریت والوں سے کسی پوچھ گچھ سے پہلے ہی وہ لندن، نیو یارک یا دبئی میں ہوں گے۔
دوہری شہریت کے حق اور مخالفت میں دلائل موجود ہیں مگر ایک بات واضح ہے کہ اب فیصلہ کن گھڑی ہے۔ دوہری شہریت کے ایشو کے ساتھ ساتھ اثاثوں کا بھی ایشو بلکہ بعد میں بچوں خصوصاً نابالغ بچے جن کی غیر ملکی شہریت ہو، ان کا بھی معاملہ اٹھنا چاہیے۔
اس سارے ایشو میں پارلیمنٹ کو لیڈ لینا ہوگی۔ نہ صرف حکومت بلکہ اپوزیشن کو قانون سازی میں پیش رفت کرنا ہوگی۔ سیاست دانوں کے بارے میں تو ویسے بھی بات ہوتی ہے، ان کے ساتھ سرکاری افسروں اور دیگر عہدیداروں کو بھی دیکھنا ہو گا۔
پہلے بھی اس معاملے کو سپریم کورٹ نے ٹٹولا تھا، مناسب نہیں کہ دوبارہ یہ معاملہ وہیں جا پہنچے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کے لیے سوچنے کا مقام ہو گا۔