Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی اے نے ’پب جی‘ پر عائد پابندی ہٹا دی

گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ نے آن لائن گیم ’پب جی ‘ کو فوری کھولنے کا حکم دیا تھا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے آئن لائن گیم ’پب جی‘ پر پابندی ہٹا دی ہے۔
پی ٹی اے کے اعلامیے کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی اور ’پب جی‘ کے نمائندے کے درمیاں ایک میٹنگ ہوئی جس کے دوران کمپنی کے نمائندے نے پی ٹی اے کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کے حوالے سے بریفنگ دی۔
بریفنگ کے دوران ’پب جی‘ کے نمائندے نے کمپنی کی جانب سے گیمنگ پلیٹ فارم کے غلط استعمال کو روکنے کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات پر روشنی ڈالی۔
پی ٹی اے نے کمپنی کی جانب سے لیے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا اور مستقل رابطوں اور کنٹرول میکینزم پر زور دیا۔
اعلامیے کے مطابق کمپنی کے نمائندے نے پی ٹی اے کے فیڈبیک کا خیرمقدم کیا اور کہا پی ٹی اے کے خدشات پر عوروخوص کیا گیا۔
کمپنی نے پی ٹی اے سے گیم پر عائد پابندی ہٹانے کی دوخواست کی جسے منظور کرلیا گیا۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ نے آن لائن گیم ’پب جی' کو فوری کھولنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کا پب جی پر پابندی کا  فیصلہ  کالعدم قرار دیا تھا۔
پی ٹی اے نے شہریوں کی شکایات کے بعد پب جی پر پابندی لگائی تھی۔ پاکستان میں پب جی کنٹرول کرنے والی کمپنی نے پی ٹی اے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
’پب جی‘ پر سے پابندی ہٹانے کی خبر کو سوشل میڈیا صارفین نے ہاتھو ہاتھ لیا اور اس کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔
عروج فاطمہ نامی صارف نے لکھا ’دل کرتا ہے پی ٹی اے چئیرمین کو ایک چھمی دے دو۔ دل جیت لیا اب انہیں تھینکس کرنے کیلئے یہ ٹرینڈ چلاؤ شاباش۔۔‘
ملک جی نامی ہینڈل نے لکھا کہ ’پی ٹی اے کو سب سے پہلے گیم پر پابندی لگانے پر معافی مانگنی چاہیے۔‘
بہت سے صارفین سکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے شکایت کر رہے ہیں کہ پابندی ختم کرنے کے اعلان کے باوجود گیم نہیں چل رہا ہے۔
عزیز اللہ نے سکرین شاٹ پوسٹ کرکے لکھا کہ ’ سر خیبر پختونخوا میں یہ اب تک کام نہیں کر رہا ہے۔‘
کچھ صارفین نے پی ٹی اے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
اویس خان مروت نامی صارف نے لکھا کہ ’کہ یہ صرف فیس سیونگ کے لیے مینٹنگ تھی اور عمل درآمد کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ پی ٹی اے نے غلط استعمال کے حوالے سے کمپنی کے قواعد و ضوابط کو کافی قرار دیا۔ اگر ایسا ہی تھا تو اس پر اتنا شور کیوں مچایا گیا۔‘

شیئر: